اَلْاَسَفُ : حزن او رغضب کے مجموعہ کو کہتے ہیں۔ کبھی آسَفَ کا لفظ حزن او رغضب میں سے ہر ایک پر انفراداً بھی بولا جاتا ہے۔ اصل میں اس کے معنی جذبۂ انتقام سے دمِ قلب کے جوش مارنا کے ہیں۔ اگ ریہ کیفیت اپنے سے کمزور آدمی پر پیش آئے تو پھیل کر غضب کی صورت اختیار کرلیتی ہے اور اگر اپنے سے قوی آدمی پر ہو تو منقبض ہوکر حزن بن جاتی ہے۔ اس لیے جب حضرت ابن عباسؓ سے حزن اور غضب کی حقیقت دریافت کی گئی تو انہوں نے فرمایا : لفظ دو ہیں مگر ان کی اصل ایک ہی ہے۔ جب کوئی شخص اپنے سے کمزور کے ساتھ جھگڑتا ہے تو غیظ و غضب کا اظہار کرتا ہے اور جب اپنے سے قوی کے ساتھ جھگڑتا ہے تو واویلا اور غم کا اظہار کرتا ہے اسی بنا پر اشعر نے کہا ہے(1) ع البسیط (۱۴) فَحَزْنُ کُلِّ اَخِیْ حُزْنٍ احُوالْغَضَب کہ ہر غمزدہ کا حزن غضب کا ساتھی ہے۔ او رآیت کریمہ : (فَلَمَّاۤ اٰسَفُوۡنَا انۡتَقَمۡنَا مِنۡہُمۡ ) (۴۳:۵۵) کے معنی یہ ہیں کہ جب انہوں نے غضب ناک کیا تو ہم نے ان سے انتقام لیا۔ یہاں ابوعبداﷲ الرضا کا قول ہے کہ اﷲ میاں ہماری طرح خفا نہیں ہوتے بلکہ اﷲ تعالیٰ کے خفا ہونے سے اس کے اولیاء کا خفا ہونا مراد ہوتا ہے، اسی طرح اﷲ تعالیٰ کے راضی ہونے کے معنی اس کے اولیاء کے راضی ہونے کے ہیں۔ اسی بنا پر اﷲ تعالیٰ نے ایک حدیث قدستی میں فرمایا ہے : (۱) مَنْ اَھَانَ لِیْ وَلِیًا فَقَدْ بَارَزَنِی بِالْمُحَارَبَۃِ یعنی جس نے میرے دوست کی اہانت کی اس نے میرے ساتھ جنگ کی۔ اور قرآن پاک میں ہے : (مَنۡ یُّطِعِ الرَّسُوۡلَ فَقَدۡ اَطَاعَ اللّٰہَ ) (۴:۸۰) جو شخص رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی فرمانبرداری کرے گا تو بے شک اس نے خدا کی فرمانبرداری کی۔ او رآیت کریمہ : (غَضۡبَانَ اَسِفًا) (۷:۱۵۰) میں اٰسِفٌ کے معنی بھی غضب ناک ہی کے ہیں اور استعارہ کے طور پر ماتحت غلام کو نیز جس کا (بوجہ کراہت کے) نام لینا پسند نہ ہو اسے اَسِفٌ (بیچارہ) کہہ دیا جاتا ہے۔ (2)
Words | Surah_No | Verse_No |
اَسَفًا | سورة الكهف(18) | 6 |
اَسِفًا | سورة الأعراف(7) | 150 |
اَسِفًا | سورة طه(20) | 86 |
اٰسَفُوْنَا | سورة الزخرف(43) | 55 |
يٰٓاَسَفٰى | سورة يوسف(12) | 84 |