اَلْمَلِکُ: بادشاہ جو پبلک پر حکمرانی کرتا ہے یہ لفظ صرف انسانوں کے منتظم کے ساتھ خاص ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مَلِکُ النَّاسِ تو کہا جاتا ہے لیکجن مَلِکُ الْاَشْیَائِ کہنا صحیح نہیں ہے۔ اور آیت کریمہ : (مٰلِکِ یَوۡمِ الدِّیۡنِ ) (۱۔۳) انصاف کے دن کا حاکم۔ میں ملک کی اضافت یوم کی طرف نہیں ہے۔ بلکہ یہ اصل میں ملک الملک فی یوم الدین ہے۔ یعنی قیامت کے دن اسی کی بادشاہت ہوگی۔ جیسا کہ دوسری جگہ فرمایا (لِّمَنِ الْمُلْکُ الْیَوْمَ لِلَّہِ الْوَاحِدِ الْقَہَّارِ ) (۴۰۔۱۶) آج کس کی بادشاہت ہے، خدا کی جو اکیلا اور غالب ہے۔ اور مِلْکٌ کا لفظ دو طرح پر استعمال ہوتا ہے عَمْلًا کسی کا متولی اور حکمران ہونے کو کہتے ہیں۔ دوم حکمرانی کی قوت اور قابلیت کے پائے جانے کو کہتے ہیں۔ خواہ باالفعل اس کا متولی ہو یا نہ ہو۔ چنانچہ پہلے معنی کے لحاظ سے فرمایا۔ (اِنَّ الۡمُلُوۡکَ اِذَا دَخَلُوۡا قَرۡیَۃً اَفۡسَدُوۡہَا) (۲۷۔۳۴) بادشاہ جب کسی ملک میں داخل ہوتے ہیں۔ تو اس کو تباہ کردیتے ہین۔ اور دوسرے معنی کے لحاظ سے فرمایا: ( اِذۡ جَعَلَ فِیۡکُمۡ اَنۡۢبِیَآءَ وَ جَعَلَکُمۡ مُّلُوۡکًا) (۵۔۲۰) کہ اس نے تم میں پیغمبر کیے اور تمہیں بادشاہ بنایا۔ تو اس آیت میں نبوت کو خاص اور ملکوکیت کو عام قرار دیا ہے۔ اور یہ ظاہر ہے کہ بنی اسرائیل سارے کے سارے بادشاہ نہیں تھے۔ کیونکہ یہ تو حکمت الٰہی کے ہی منافی ہے۔ جیسا کہ کہا گیا ہے کہ رئوساء کی کثرت میں خیر نہیں ہوتی لہذا یہاں جَعَلَکُمْ مُّلُوْکًا کے معنی یہ ہیں کہ تمہیں ملک کا انتظام سنبھالنے کے قابل بنایا۔ تو یہاں ملک کا لفظ سیاست کی قابلیت اور قوت پیدا کردینے کے معنوں میں استعمال ہوا ہے۔ بعض نے کہا ہے کہ ملک ہر اس شخص کو کہا جاتا ہے جو سیاست کا مالک ہو۔ خواہ وہ اپنے نفس کی سیاست کرے بایں طور پر کہ نفس کو خواہشات سے روک رکھنے پر اسے قدرت ہو۔ یا دوسروں کی سیاست کرے اور عام اس سے کہ بالفعل لوگوں کو بادشاہ ہو یا نہ ہو جیسا کہ گزر چکا ہے۔ قرآن پاک میں ہے (فَقَدۡ اٰتَیۡنَاۤ اٰلَ اِبۡرٰہِیۡمَ الۡکِتٰبَ وَ الۡحِکۡمَۃَ وَ اٰتَیۡنٰہُمۡ مُّلۡکًا عَظِیۡمًا) (۴۔۵۴) ہم نے خاندان ابراہیم علیہ السلام کو کتاب اور دانائی عطا فرمائی تھی اور سلطنت عظیم بخشی تھی۔ حقیقی بادشاہت چونکہ اﷲ ہی کے لیے ہے۔ اس لیے فرمایا: (لَہُ الۡمُلۡکُ وَ لَہُ الۡحَمۡدُ) (۶۴۔۱) اس کی (سچی) بادشاہی ہے اور اس کی تعریف نا متناہی ہے۔ ( قُلِ اللّٰہُمَّ مٰلِکَ الۡمُلۡکِ تُؤۡتِی الۡمُلۡکَ مَنۡ تَشَآءُ وَ تَنۡزِعُ الۡمُلۡکَ مِمَّنۡ تَشَآءُ) (۳۔۲۶) کہو کہ اے خدا ، اے بادشاہی کے مالک ! تو جس کی چاہے بادشاہی بخشے اور جس سے چاہے بادشاہ ہی چھین لے۔ پس ملک کے معنی زیر تصرف چیز پر بذریعہ حکم کنٹرول کرنے کے ہیں۔ اور ملک بمنزلہ جنس کے ہیں۔ لہذا ہر مُلْکٌ کو مِلْکُ تو کہہ سکتے ہیں لیکن ہر مِلک کو مَلک نہیں کہہ سکتے۔ قرآن پاک میں ہے:۔ (وَ لَا یَمۡلِکُوۡنَ لِاَنۡفُسِہِمۡ ضَرًّا وَّ لَا نَفۡعًا وَّ لَا یَمۡلِکُوۡنَ مَوۡتًا وَّ لَا حَیٰوۃً وَّ لَا نُشُوۡرًا) (۲۵۔۳) اور نہ اپنے نقصان اور نفع کا کچھ اختیار رکھتے ہیں اور نہ مرنا ان کے اختیار میں ہے۔ اور نہ جینا اور نہ مرکر اٹھ کھڑے ہونا۔ اور فرمایا۔ (اَمَّنۡ یَّمۡلِکُ السَّمۡعَ وَ الۡاَبۡصَارَ) (۱۰۔۳۱) یا تمہارے کانوں اور آنکھوں کا مالک کون ہے۔ (قُلۡ لَّاۤ اَمۡلِکُ لِنَفۡسِیۡ نَفۡعًا وَّ لَا ضَرًّا ) (۷۔۱۸۸) کہ میں اپنے فائدے اور نقصان کا کچھ اختیار نہیں رکھتا۔ علی ہذا القیاس بہت سی آیات ہیں ( جن سے ثابت ہے کہ ہر چیز اﷲ تعالیٰ کے قبضہ قدرت میں ہے) حتیٰ کہ انسان تو اپنے حواس اور اپنی ذات کے نفع و نقصان پر بھی قدرت نہیں رکھتا چہ جائے کہ ۔ دوسروں کو فائدہ پہنچانے کا ذمہ دار بنے۔ اَلْمَلکُوْتُ یہ مَلَکٌ کا مصدر ہے اور (رَحَمُوْتٌ وَرَھَبُوْتٌ کی طرح اس میں تاء زائد ہے ۔ اور یہ لفظ اﷲ تعالیٰ کی ملک کے ساتھ مخصوص ہے چنانچہ فرمایا۔ (وَ کَذٰلِکَ نُرِیۡۤ اِبۡرٰہِیۡمَ مَلَکُوۡتَ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ) (۶۔۷۵) اور ہم اس طرح ابراہیم علیہ السلام کو آسمانوں اور زمین کے عجائبات دکھانے لگے۔ (اَوَ لَمۡ یَنۡظُرُوۡا فِیۡ مَلَکُوۡتِ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ) (۷۔۱۸۵) کیا انھوں نے آسمان اور زمین کی بادشاہت میں نظر نہیں کی۔اَلْمَمْلِکَۃُ کے معنی سلطنت کے ہیں۔ اور مملوک کا لفظ عرف میں غلام مملوک پر بولا جاتا ہے۔ دوسری ملکیت کو مملوک نہیں کہتے ۔ چنانچہ قرآن پاک میں ہے۔ (عَبْدًا مَّمْلُوْکًا) (۱۶۔۷۵) ایک غلام ہے۔ اور کبھی عام املاک پر بولا جاتا ہے۔ چنانچہ محاورہ ہے۔ فُلَانٌ جَوَّادٌ بِمَمْلُوْکِہ کہ فلاں اپنے املاک میں سخی ہے۔ اَلْمِلْکَۃُ: خاص کر عبید یعنی غلاموں کا مالک ہونے کو کہتے ہیں۔ چنانچہ محاورہ ہے۔ (لِیَسۡتَاۡذِنۡکُمُ الَّذِیۡنَ مَلَکَتۡ اَیۡمَانُکُمۡ ) (۲۴۔۵۸) تمہارے غلام لونڈیاں.... اجازت لیا کریں۔ (اَوۡ مَا مَلَکَتۡ اَیۡمَانُکُمۡ) (۴۔۳) یا لونڈی جس (اَوۡ مَا مَلَکَتۡ اَیۡمَانُہُنَّ ) (۲۴۔۳۱) اپنے لونڈی غلاموں ( کے سوا) اَلْمُلُوْکَۃُ: یہ بمعنی مِلک کے آتا ہے جیسے : مَمْلُوْکٌ مُّقِرٌّ بِالْمُلُوْکَۃٍ وَالْمِلْکَۃِ وَالْمِلْکِ: یعنی ملک کا اقرار کرنے والا غلام۔ مِلَاکُ الْاَمْرِ: کسی چیز کا سرمایہ جس کے سہارے پر وہ قائم ہو۔ جیسے کہا جاتا ہے۔ اَلْقَلْبُ مِلَاکُ الْجَسَدِ: کہ دل پر جسم کا دارومدار ہے۔ اَلْمِلَاکُ کے معنی تزویج کے ہیں۔ اور اَمْلَکُوْہُ کے معنی ہیں کہ انھوں نے اس کا نکاح کردیا پھر خاوند کو عورت کا منتظم ہونے کے لحاظ سے اس کا بادشاہ کہا جاتا ہے۔ چنانچہ اسی معنی کے لحاظ سے کسی نے کہا ہے۔ کَادَالْعَرُوْسُ اَنْ یَّکُوْنَ مَلِکًا کہ خاوند قریب قریب بادشاہ ہی ہوتا ہے۔ مَلِکُ الْاِبِلِ وَالشَّاۃِ: اس اونٹ یا بکری کو کہتے ہیں۔ جو دوسروں کے آگے آگے چلتی ہے۔ دوسرے چونکہ اس کے تابع ہوتے ہیں۔ اس لیے تشبیہ کے طور پر اس کو ملک کہا جاتا ہے۔ ایک محاورہ ہے۔ (مَآاَخْلَفْنَا مَوْعِدَکَ بِمَلْکِنَا) (۲۰۔۸۷) ہم نے اپنے اختیار سے تم سے وعدہ خلاف نہیں کیا۔ اور ایک قرأت میں کسرہ میم کے ساتھ ہے۔ مَلَکْتُ الْعَجِیْنَ: آٹے کو اچھی طرح سے گوندھا۔ حَائِطٌ لَیْسَ لَہ مِلَاکٌ: دیوار میں پائیداری نہیں ہے۔ اَلْمَلَکُ : علمائے نحواس لفظ کو مَلَائِکَۃٌ سے ماخوذ مانتے ہیں۔ اور اس کی میم کو زائدہ بناتے ہیں۔ لیکن بعض محقیقین نے اسے ملک سے مشتق مانا ہے۔ اور کہا ہے کہ جو فرشتہ کائنات کا انتظام کرتا ہے۔ اسے فتحہ لام کے ساتھ مَلَکٌ کہا جاتا ہے۔ اور فتحہ لام کے ساتھ ملک کہا جاتا ہے۔ اور فتحہ لام کے ساتھ ملک کہا جاتا ہے اور انسان کو مَلِکَ کہتے ہیں معلوم ہوا کہ مَلَکٌ تو مَلَائِکَۃٌ میں شامل ہے لیکن کل مَلَائِکَۃٌ مَلَکٌ نہیں ہوتے ۔ بلکہ ملک کا لفظ ان فرشتوں پر بولا جاتا ہے جن کی طرف کہ آیات۔ (فَالۡمُدَبِّرٰتِ اَمۡرًا) (۷۹۔۵) پھر (دنیا کے) کاموں کا انتظام کرتے۔ (فَالۡمُقَسِّمٰتِ اَمۡرًا ) (۵۱۔۴۰) پھر چیزیں تقسیم کرتے ہیں۔ (وَ النّٰزِعٰتِ غَرۡقًا ) (۷۹۔۱) ان (فرشتوں) کی قسم جو ڈوب کر کھینچ لیتے ہیں۔ (وَّ الۡمَلَکُ عَلٰۤی اَرۡجَآئِہَا) (۶۹۔۱۷) اور فرشتے اس کے کناروں پر (اتر آئیں گے) (وَ مَاۤ اُنۡزِلَ عَلَی الۡمَلَکَیۡنِ ) (۲۔۱۰۲) اور (ان باتوں کے بھی پیچھے لگ گئے) جو دو فرشتوں پر اتری تھیں۔ اور ان کے علاوہ دوسری آیات میں اشارہ فرمایا گیا ہے۔ اوراسی سے مَلَکُ المُوْتِ (موت کا فرشتہ) ہے۔ چنانچہ فرمایا: (قل یتوفکم ملک الموت الذی وکل بکم ) (۳۲۔۱۱) کہہ دو کہ موت کا فرشتہ جو تم پر مقرر کیا گیا ہے۔ تمہاری روحیں قبض کرلیتا ہے۔
Words | Surah_No | Verse_No |
الْمَلِكُ | سورة يوسف(12) | 43 |
الْمَلِكُ | سورة يوسف(12) | 50 |
الْمَلِكُ | سورة يوسف(12) | 54 |
الْمَلِكُ | سورة طه(20) | 114 |
الْمَلِكُ | سورة المؤمنون(23) | 116 |
الْمَلِكِ | سورة يوسف(12) | 72 |
الْمَلِكِ | سورة يوسف(12) | 76 |
الْمَلِكِ | سورة الجمعة(62) | 1 |
الْمُلُوْكَ | سورة النمل(27) | 34 |
الْمُلْكَ | سورة البقرة(2) | 251 |
الْمُلْكَ | سورة البقرة(2) | 258 |
الْمُلْكَ | سورة آل عمران(3) | 26 |
الْمُلْكَ | سورة آل عمران(3) | 26 |
الْمُلْكُ | سورة البقرة(2) | 247 |
الْمُلْكُ | سورة الأنعام(6) | 73 |
الْمُلْكُ | سورة فاطر(35) | 13 |
الْمُلْكُ | سورة الزمر(39) | 6 |
الْمُلْكُ | سورة مومن(40) | 16 |
الْمُلْكُ | سورة مومن(40) | 29 |
الْمُلْكُ | سورة التغابن(64) | 1 |
الْمُلْكُ | سورة الملك(67) | 1 |
الْمُلْكِ | سورة آل عمران(3) | 26 |
الْمُلْكِ | سورة النساء(4) | 53 |
الْمُلْكِ | سورة يوسف(12) | 101 |
الْمُلْكِ | سورة بنی اسراءیل(17) | 111 |
الْمُلْكِ | سورة الفرقان(25) | 2 |
اَلْمَلِكُ | سورة الحشر(59) | 23 |
اَلْمُلْكُ | سورة الحج(22) | 56 |
اَلْمُلْكُ | سورة الفرقان(25) | 26 |
اَمْلِكُ | سورة المائدة(5) | 25 |
اَمْلِكُ | سورة الأعراف(7) | 188 |
اَمْلِكُ | سورة يونس(10) | 49 |
اَمْلِكُ | سورة الممتحنة(60) | 4 |
اَمْلِكُ | سورة الجن(72) | 21 |
بِالْمُلْكِ | سورة البقرة(2) | 247 |
بِمَلْكِنَا | سورة طه(20) | 87 |
تَمْلِكَ | سورة المائدة(5) | 41 |
تَمْلِكُ | سورة الإنفطار(82) | 19 |
تَمْلِكُهُمْ | سورة النمل(27) | 23 |
تَمْلِكُوْنَ | سورة بنی اسراءیل(17) | 100 |
تَمْلِكُوْنَ | سورة الأحقاف(46) | 8 |
مَلَكًا | سورة الأنعام(6) | 8 |
مَلَكًا | سورة الأنعام(6) | 9 |
مَلَكٌ | سورة الأنعام(6) | 8 |
مَلَكٌ | سورة الأنعام(6) | 50 |
مَلَكَتْ | سورة النساء(4) | 3 |
مَلَكَتْ | سورة النساء(4) | 24 |
مَلَكَتْ | سورة النساء(4) | 25 |
مَلَكَتْ | سورة النساء(4) | 36 |
مَلَكَتْ | سورة النحل(16) | 71 |