آیت کریمہ: (وَّ بُسَّتِ الۡجِبَالُ بَسًّا) (۵۶:۵) میں بُسَّتْ کے معنی پہاڑوں کے ریزہ ریزہ ہوجانا کے ہیں اور یہ بَسَسْتُ الْحَنْطَۃَ وَالسَّوِیْقَ بِالْمَائِ کے محاورہ سے ماخوذ ہے۔ جس کے معنی پانی میں گندم یا جو کے ستو ڈال کر نشاستہ نکالنے کے ہیںاور نشاستہ کو بَسِیْسَۃ کہا جاتا ہے بعض نے اس کے معنی تیز ہنکانا کیے ہیں اور کہا ہے کہ یہ اِنْبَسَّتِ الْحَیَّۃُ کے محاورہ سے ماخوذ ہے، جس کے معنی سانپ کے نہایت تیزی کے ساتھ اپنے بل کی طرف دوڑنا کے ہیں اور اسی معنی کو دوسری جگہ (یَوۡمَ نُسَیِّرُ الۡجِبَالَ ) (۱۸:۴۷) اور (وَ تَرَی الۡجِبَالَ تَحۡسَبُہَا جَامِدَۃً وَّ ہِیَ تَمُرُّ مَرَّ السَّحَابِ ) (۲۷:۸۸) کے ساتھ تعبیر کیا گیا ہے۔ بَسَسْتُ الْاَبِلَ: اونٹوں کو ہنکاتے وقت ڈانٹنا اَبْسَسْتُ بِھَا عِنْدَالْحَلْبِ کو جو بغیر چمکارنے کے دودھ نہ دے بَسُوْسٌ کہا جاتا ہے۔ حدیث پاک میں ہے(1) (۲۸) جَائَ اَھْلُ الْیَمَنِ یَبُسُّوْنَ عِیَالَھُمْ کہ اہل یمن اپنے اہل و عیال کو نرمی سے چلاتے ہوئے آپہنچے ہیں۔
Words | Surah_No | Verse_No |
بَسًّا | سورة الواقعة(56) | 5 |
وَّبُسَّتِ | سورة الواقعة(56) | 5 |