اَلدَّحْوُ: کے معنیٰ کسی چیز کو اس کی جگہ سے زائل کردینے کے ہیں: قرآن پاک میں ہے: (وَ الۡاَرۡضَ بَعۡدَ ذٰلِکَ دَحٰىہَا ) (۷۹۔۳۰) اور اس کے بعد زمین کو اس مقر سے دور کیا۔ یعنی اسے اس کی قرارگاہ سے زائل کردیا جیسا کہ آیت کریمہ: (یَوۡمَ تَرۡجُفُ الۡاَرۡضُ وَ الۡجِبَالُ ) (۷۳۔۱۴) میں ہے۔یہ دَحَاالْمَطَرُ الْحَصٰی عَنْ وَّجْہِ الْاَرْضِ: (کہ بارش زمین سے کنکر بہاکر لے گئی) کے محاورہ سے ماخوذ ہے۔نیز کہا جاتا ہے۔ مَرَّالْفَرَسُ یَدْحُوْ دَحْوًا،گھوڑا اپنے سم زمین پر لگاتا خاک اڑاتا چلاگیا۔ اور اسی سے اُدْحِیُّ النَّعامِ ہے جس کے معنیٰ ریت میں شترمرغ کے انڈے دینے کی جگہ کے ہیں۔ یہ دَحَوْتُ سے اُفْعُوْلٌ کے وزن پر ہے۔دِحْیَۃ ایک مرد کا نام تھا (جو وحیہ کلبی کے نام سے مشہور تھا۔)
Words | Surah_No | Verse_No |
دَحٰىهَا | سورة النازعات(79) | 30 |