۔ (۱۰۱۱۴)۔ عَنْ ذَکْوَانَ مَوْلیٰ عَائِشَۃَ،عَنْ
عَائِشَۃَ رضی اللہ عنہا ، قَالَتْ: دَخَلَ عَلَیَّ النَّبِیُّ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بِاَسِیْرٍ فَلَھَوْتُ عَنْہُ فَذَھَبَ فَجَائَ النَّبِیُّ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فَقَالَ: ((مَافَعَلَ الْاَسِیْرُ؟)) قَالَتْ: لَھَوْتُ عَنْہُ مَعَ النِّسْوَۃِ فَخَرَجَ، فَقَالَ: ((مَالَکِ قَطَعَ اللّٰہُ یَدَکِ اَوْ یَدَیْکِ۔)) فَخَرَجَ فَآذَنَ بِہٖالنَّاسَفَطَلَبُوْہُفَجَائُوْابِہٖفَدَخَلَعَلَیَّ وَاَنَا اُقَلِّبُ یَدَیَّ، فَقَالَ: ((مَالَکِ اَجُنِـنْتِ؟)) قُلْتُ: دَعَوْتَ عَلَیَّ فَاَنَا اُقَلِّبُ یَدَیَّ اَنْظُرُ اَیُّھُمَایُقْطَعَانِ، فَحَمِدَ اللّٰہَ وَاَثْنٰی عَلَیْہِرَفَعَیَدَیْہِ مَدًّا وقَالَ: ((اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ بَشَرٌ اَغْضَبُ کَمَا یَغْضَبُ الْبَشَرُ، فَاَیُّمَا مُؤْمِنٍ اَوْ مُؤْمِنَۃٍ دَعَوْتُ عَلَیْہِ فَاجْعَلْہُ لَہُ زَکَاۃً وَطُھْرًا۔)) (مسند احمد: ۲۴۷۶۳)
۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے، وہ کہتی ہیں؛ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک قیدی میرے پاس لائے، لیکن میں اس سے غافل ہو گئی اور وہ بھاگ گیا، پس جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف لائے تو پوچھا: قیدی کا کیا بنا؟ میں نے کہا: جی میں دوسری خواتین کے ساتھ غافل ہو گئی تھی، پس وہ نکل گیا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ تیرے ہاتھوں یا پاؤں کو کاٹ دے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم باہر تشریف لے گئے اور لوگوں میں اس قیدی کا اعلان کیا، پس انھوں نے اس کو تلاش کیا اور پکڑ کر لے آئے، پھر جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میرے پاس تشریف لائے تو میں اپنے ہاتھوں کو الٹ پلٹ کر رہی تھی، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پوچھا: تجھے کیا ہو گیا ہے، پاگل ہو گئی ہے تو؟ میں نے کہا: جی آپ نے مجھ پر بد دعا کی ہے، اب میں اپنے ہاتھوں کو الٹ پلٹ کر کے دیکھ رہی ہوں کہ کون سا ہاتھ پہلے کٹتا ہے، ہ سن کر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حمد و ثنا بیان کی اور اپنے ہاتھ اٹھا کر فرمایا: اے اللہ! بیشک میں ایک بشر ہوں اور بشر کی طرح ہی غصے ہو جاتا ہوں، پس میں جس مؤمن مردیا عورت پر بد دعا کروں تو اس کو اس کے لیے پاکیزگی اور طہارت کا سبب بنا دے۔
Musnad Ahmad, Hadith(10114)