۔ (۱۰۱۱۶)۔ عَنْ عُرْوَۃَ بْنِ الزُّبَیْرِ رضی اللہ عنہ ،
اَنَّ عَائِشَۃَ رضی اللہ عنہا قَالَتْ: اِنَّ اَمْدَادَ الْعَرَبِ کَثَرُوْا عَلٰی رَسُوْلِ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حَتّٰی غَمُّوْہُ وَقَامَ الْمُھَاجِرُوْنَ یُفَرِّجُوْنَ عَنْہُ حَتَّی قَامَ عَلٰی عَتَبَۃِ عَائِشَۃَ، فَرَھِقُوْہُ فَاَسْلَمَ رِدَائَہُ فِیْ اَیْدِیْھِمْ، وَوَثَبَ عَلَیالْعَتَبَۃِ فَدَخَلَ وَقَالَ: ((اَللّٰھُمَّ الْعَنْھُمْ۔)) فَقَالَتْ عَائِشَۃُ: یَارَسُوْلَ اللّٰہِ! ھَلَکَ الْقَوْمُ، فَقَالَ: ((کَلَّا وَاللّٰہِ! یَا بِنْتَ اَبِیْ بَکْرٍ! لَقَدِ اشْتَرَطْتُ عَلٰی رَبِّیْ عَزَّوَجَلَّ شَرْطًا لَا خُلْفَ لَہُ۔)) فَقُلْتُ: ((اِنّمَا اَنَا بَشَرٌ اَضِیْقُ کَمَا یَضِیْقُ بِہٖالْبَشَرُ،فَاَیُّ الْمُؤْمِنِیْنَ بَدَرَتْ اِلَیْہِ مِنِّیْ بَادِرَۃٌ فَاجْعَلْھَا لَہُ کَـفَّارَۃً۔)) (مسند احمد: ۲۵۲۷۳)
۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ عرب اعوان وانصاری اس کثرت سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آئے اور اتنا ہجوم ہوا کہ مہاجرین کھڑے ہو گئے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لیے کشادگی پیدا کرنے لگے، یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی دہلیز کے پاس کھڑے ہو گئے، پھر وہ اس قدر قریب ہو گئے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کو اپنی چادر پکڑا دی اور خود جلدی سے دہلیز پر چڑھ گئے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اندر داخل ہو گئے اور فرمایا: اے اللہ! ان پر لعنت کر۔ سیدہ نے کہا: لوگ تو ہلاک ہو گئے ہیں، (کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے لعنت کر دی ہے)۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ہر گز نہیں، اللہ کی قسم! اے ابو بکر کی بیٹی! میں نے اپنے ربّ سے ایک شرط لگائی ہے، وہ اس کی مخالفت نہیں کرے گا، میں نے اپنے ربّ سے کہا: میں تو ایک بشر ہی ہوں اور بشر کی طرح ہی تنگ ہو جاتا ہوں، پس جس مؤمن کے حق میں میری طرف سے غصہ کی حالت میں کوئی بات نکل جائے تو اس کو اس کے حق میں کفارہ بنا دے۔
Musnad Ahmad, Hadith(10116)