Blog
Books



۔ (۱۰۲۰۲)۔ حَدَّثَنِیْ اِبْرَاھِیْمُ بْنُ الْحَجَّاجِ النَّاجِیُّ قَالَ: ثَنَا عَبْدُ الْقَاھِرُ بْنُ السَّرِیِّ قَالَ: حَدَّثَنِیْ ابْنٌ لِکَنَانَۃَ بْنِ عَبَّاسِ بْنِ مِرْدَاسٍ عَنْ اَبِیْہِ اَنَّ اَبَاہُ الْعَبَّاسَ بْنَ مِرْدَاسٍ حَدَّثَہُ اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم دَعَا عَشِیَّۃَ عَرَفَۃَ لِاُمَّتِہِ بِالْمَغْفِرَۃِ وَالرَّحْمَۃِ، فَاَکْثَرَ الدُّعَائَ فَاَجَابَہُ اللّٰہُ عَزَّوَجَلَّ اَنْ قَدْ فَعَلْتُ وَغَفَرْتُ لِاُمَّتِکَ اِلَّا مَنْ ظَلَمَ بَعْضُھُمْ بَعْضًا، فَقَالَ: یَارَبِّ! اِنَّکَ قَادِرٌ اَنْ تَغْفِرَ لِلظَّالِمِ، وَتُثِیْبَ الْمَظْلُوْمَ خَیْرًا مِنْ مَظْلَمَتِہِ۔)) فَلَمْ یَکُنْ فِیْ تِلْکَ الْعَشِیَّۃِ اِلَّا ذَا، یَعْنِیْ فَلَمْ یُجِبْہُ تِلْکَ الْعَشِیَّۃَ کَمَا فِیْ بَعْضِ الرَّوَایَاتِ، فَلَمَّا کَانَ مِنَ الْغَدِ دَعَا غَدَاۃَ الْمُزْدَلِفَۃِ فَعَادَ یَدْعُوْ لِاُمَّتِہِ فَلَمْ یَلْبَثِ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اَنْ تَبَسَّمَ فَقَالَ بَعْضُ اَصْحَابِہٖ: یَارَسُوْلَ اللّٰہِ! بِاَبِیْ اَنْتَ وَاُمِّیْ ضَحِکْتَ فِیْ سَاعَۃٍ لَمْ تَکُنْ تَضْحَکُ فِیْھَا، فَمَا اَضْحَکَکَ؟ اَضْحَکَ اللّٰہُ سِنَّکَ۔ قَالَ: ((تَبَسَّمْتُ مِنْ عَدُوِّ اللّٰہِ اِبْلَیْسَ حِیْنَ عَلِمَ اَنَّ اللّٰہَ عَزَّوَجَلَّ قَدِ اسْتَجَابَ لِیْ فِیْ اُمَّتِیْ وَغَفَرَ لِلظَّالِمِ اَھْوٰییَدْعُوْ بِالثُّبُوْرِ وَالْوَیْلِ وَیَحْثُوْا التُّرَابَ عَلٰی رَاْسِہِ فَتَبَسَّمْتُ مِمَّا یَصْنَعُ جَزْعُہُ۔)) (مسند احمد: ۱۶۳۰۸)
۔ سیدنا عباس بن مرداس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے عرفہ کی شام کو اپنی امت کے لیے کثرت کے ساتھ مغفرت اور رحمت کی دعا، پس اللہ تعالیٰ نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی دعا قبول کی اور فرمایا: بے شک تحقیق میں نے کر دیا ہے اور تیری امت کو بخش دیا ہے، مگر وہ جو یہ خود ایک دوسرے پر ظلم کریں گے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اے میرے ربّ! تو اس چیز پر قادر ہے کہ تو ظالم کو بخش دے اور مظلوم کو اس پر کے گئے ظلم سے بہتر اجر و ثواب عطا کر دے۔ اس شام کو تو یہی کچھ ہوا تھا، یعنی عرفہ کی شام کو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کییہ دعا قبول نہیں ہوئی تھی، جیسا کہ بعض روایاتمیں ہے، جب اگلا دن ہوا تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مزدلفہ کی صبح کو اپنی امت کے لیے دعا مانگنا شروع کی، جلد ہی آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مسکرانے لگ گئے، ایک صحابی نے کہا: اے اللہ کے رسول! میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں، آپ ایسی گھڑی میں مسکرائے ہیں، جس میں مسکرانا آپ کی عادت نہیں تھی، پس کس چیز نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو ہنسایا ہے؟ اللہ تعالیٰ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے دانت مبارک کو مسکراتا رکھے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میں اللہ کے دشمن ابلیس کی وجہ سے مسکرایا ہوں، جب اس کو علم ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے میری امت کے حق میں میری دعا قبول کر لی ہے اور ظالم کو بھی بخش دیا ہے تو اس نے ہلاکت کو پکارا اور اپنے سر پر مٹی ڈالنے لگا، پس میں اس جزع و فزع کو دیکھ کر مسکرانے لگا۔
Musnad Ahmad, Hadith(10202)
Background
Arabic

Urdu

English