۔ (۱۰۲۱۴)۔ عَنْ جَابِرٍ رضی اللہ عنہ ، قَالَ: بَیْنَمَا نَحْنُ مَعَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فِیْ صُفُوْفِنَا فِیْ الصَّلَاۃِ صَلَاۃِ الظُّھْرِ، اَوِ الْعَصْرِ، فَاِذَا رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یَتَنَاوَلُ شَیْئًا، ثُمَّ تَاَخَّرَ، فَتَاَخَّرَ النَّاسُ، فَلَمَّا قَضَی الصَّلَاۃَ قَالَ لَہُ اُبَیُّ بْنُ کَعْبٍ: شَیْئًا صَنَعْتَہُ فِیْ الصَّلَاۃِ لَمْ تَکُنْ تَصْنَعُہ؟ قَالَ: ((عُرِضَتْ عَلَیَّ الْجَنَّۃُ بِمَا فِیْھَا مِنَ الزَّھْرَۃِ النَّضْرَۃِ، فَتَنَاوَلْتُ مِنْھَـا قِطْفًا مِنْ عِنَبٍ، لِآتِیَکُمْ بِہٖفَحِیْلَ بَیْنِیْ وَبَیْنَہُ، وَلَوْ اَتَیْتُکُمْ بِہٖلَاَکَلَمِنْہُمَنْبَیْنَ السَّمَائِ وَالْاَرْضِ لَا یَنْقُصُوْنَہُ شَیْئًا، ثُمَّ عُرِضَتْ عَلَیَّ النَارُ، فَلَمَّا وَجَدْتُ سَفْعَہَا تَاَخَّرْتُ عَنْھَا، وَاَکْثَرُ مَنْ رَاَیْتُ فِیْھَا النِّسَائُ اللَّاتِیْ اِنِ ائْتُمِنَّ اَفْشَیْنَ، وَاِنْ
یُسْاَلْنَ بَخِلْنَ، وَاِنْ سَاَلْنَ اَلْحَفْنَ (قَالَ حُسَیْنٌ: وَاِنْ اُعْطِیْنَ لَمْ یَشْکُرْنَ) وَرَاَیْتُ فِیْھَا لُحَیَّ بْنَ عَمْروٍ یَجُرُّ قُصْبَہُ فِیْ النَّارِ، وَاَشْبَہُ مَارَاَیْتُ بِہٖمَعَبْدُبْنُاَکْثَمَالْکَعْبِیُّ۔)) قَالَ: یَارَسُوْلَ اللّٰہِ! اَیَخْشَی عَلَیَّ مِنْ شِبْھِہِ وَھُوَ وَالِدٌ؟ فَقَالَ: ((لَا، اَنْتَ مُؤْمِنٌ وَھُوَ کَافِرٌ۔)) وَکَانَ اَوَّلُ مَنْ حَمَلَ الْعَرْبَ عَلَی عِبَادَۃِ الْآوْثَانِ۔ (مسند احمد: ۱۴۸۶۰)
۔ سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اقتدا میں صفوں میں کھڑے تھے، یہ ظہر یا عصر کی نماز تھی، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نماز کے اندر ہی کوئی چیز پکڑنا چاہی اور پھر اس قدر پیچھے ہٹے کہ لوگ بھی پیچھے ہٹنے لگ گئے، جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نماز سے فارغ ہوئے تو سیدنا ابی بن کعب رضی اللہ عنہ نے کہا: آج آپ نے نماز میں ایسی کاروائی کی ہے، جو پہلے نہیں کرتے تھے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جنت کو پوری چمک دمک اور تروتازگی کے ساتھ مجھ پر پیش کیا گیا، میں نے تمہارے پاس لانے کے لیے اس کا انگوروں کا گچھا پکڑنا چاہا، لیکن پھر بیچ میں رکاوٹ ڈال دی گئی اور اگر میں وہ لے آتا تو زمین وآسمان میں موجود تمام مخلوقات اس سے کھاتی، لیکن اس میں کوئی کمی واقع نہ ہوتی، پھر مجھ پر آگ پیش کی گئی، جب میں نے اس کی تپش محسوس کی تو میں پیچھے ہٹ آیا، اس میں اکثریت ان عورتوں کی تھی کہ جب ان کے پاس راز رکھا جائے تو وہ اس کو فاش کر دیتی ہیں، جب ان سے سوال کیا جائے تو وہ بخل کرتی ہیں، جب وہ سوال کرتی ہیں تو چمٹ جاتی ہیں اور جب ان کو دیا جائے تو شکر نہیں کرتیں، اور میں نے لحی بن عمرو کو جہنم میں دیکھا، وہ اپنی انتڑیاں کھینچ رہا تھا، میرے دیکھنے کے مطابق اس کی زیادہ مشابہت معبد بن اکثم کعبی سے تھی۔ سیدنا معبد رضی اللہ عنہ نے کہا: اے اللہ کے رسول! کیا اس مشابہت کی وجہ سے میرے بارے میں کوئی خطرہ ہے، جبکہ وہ والد بھی ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: نہیں، تم مؤمن ہو اور وہ کافر تھا۔ یہ وہ پہلا شخص تھا جس نے عربوں کو بتوں کی عبادت پر اکسایا تھا۔ عرب میں سب سے پہلے بتوں کی عبادت کو رائح کرنے والے شخص کا نام اس روایت میں لحی بن عمرو آیا ہے جبکہ صحیح عمرو بن لحی ہے۔ (دیکھیں بلوغ اللعانی) (عبداللہ رفیق)
Musnad Ahmad, Hadith(10214)