۔ (۱۰۴۳۷)۔ عَنِ ابْنِ عُمَرَ رضی اللہ عنہ ، قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم : ((مَنِ اسْتَطَاعَ مِنْکُمْ اَنْ یَکُوْنَ مِثْلَ صَاحِبِ فَرَقِ الْاَرُزِّ فَلْیَکُنْ مِثْلَہُ۔)) قَالُوْا: یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! وَ مَا صَاحِبُ فَرَقِ الْاَرُزِّ؟ قَالَ: ((خَرَجَ ثَلَاثَۃٌ فَغَیَّمَتْ عَلَیْھِمُ السَّمَائُ فَدَخَلُوْا غَارًا فَجَائَتْ
صَخْرَۃٌ مِنْ اَعْلَی الْجَبَلِ حَتّٰی طَبَّقَتِ البَابَ عَلَیْھِمْ فَعَالَجُوْھَا فَلَمْ یَسْتَطِیْعُوْھَا، فَقَالَ بَعْضُھُمْ لِبَعْضٍ: لَقَدْ وَقَعْتُمْ فِیْ أَمْرٍ عَظِیْمٍ فَلْیَدْعُ کُلُّ رَجُلٍ بِأَحْسَنِ مَا عَمِلَ لَعَلَّ اللّٰہَ تَعَالٰی أَنْ یُّنْجِیَنَا مِنْ ھٰذَا(فَقَالَ أَحَدُھُمْ:) اَللّٰھُمَّ أَنْتَ تَعْلَمُ أَنَّہُ کَانَ لِیْ أَبَوَانِ شَیْخَانِ کَبِیْرَانِ وَکُنْتُ أَحْلُبُ حِلَابَھُمَا فَأَجِْیْئُھُمَا وَقَدْ نَامَا، فَکُنْتُ أَبِیْتُ قَائِمًا وَحِلَابُھُمَا عَلٰییَدِیْ أَکْرَہُ أَنْ أَبْدَأَ بِاَحَدٍ قَبْلَھُمَا أَوْ أَنْ اُوْقِظَھُمَا مِنْ نَوْمِھِمَا، وَصِبْیَتِیْیَتَضَآغَوْنَ حَوْلِیْ، فَاِنْ کُنْتَ تَعْلَمُ اَنِّیْ اِنَّمَا فَعَلْتُہُ مِنْ خَشْیَتِکَ فَافْرُجْ عَنَّا، قَالَ: فَتَحَرَّکَتِ الصَّخْرَۃُ، قَالَ: وَقَالَ الثَّانِی: اَللّٰھُمَّ اِنَّکَ تَعْلَمُ أَنَّہُ کَانَتْ لِیْ اِبْنَۃُ عَمٍّ لَمْ یَکُنْ شَیْئٌ مِمَّا خَلَقْتَ أَحَبَّ اِلَیَّ مِنْھَا، فَسُمْتُھَا نَفْسَھَا فَقَالَتْ: لَا، وَاللّٰہِ! دُوْنَ مِائَۃِ دِیْنَارٍ فَجَمَعْتُھَا وَدَفَعْتُھَا اِلَیْھَا حَتّٰی اِذَا جَلَسْتُ مِنْھَا مَجْلِسَ الرَّجُلِ، فَقَالَتْ: اِتَّقِ اللّٰہَ وَلَاتَفُضِّ الْخَاتَمَ اِلَّا بِحَقِّہِ، فَقُمْتُ عَنْھَا، فَاِنْ کُنْتَ تَعْلَمُ اَنَّمَا فَعَلْتُہُ مِنْ خَشْیَتِکَ فَافْرُجْ عَنَّا، قَالَ: فَزَالَتِ الصَّخْرَۃُ حَتّٰی بَدَتِ السَّمَائُ، وَقَالَ الثَّالِثُ: اَللّٰھُمَّ اِنَّکَ تَعْلَمُ اَنَّیْ کُنْتُ اسْتَأْجَرْتُ أَجِیْرًا بِفَرَقٍ مِنْ أَرُزٍّ، فَلَمَّا أَمْسٰی عَرَضْتُ عَلَیْہِ حَقَّہُ فَأَبٰی أَنْ یَّأْخُذَہُ وَذَھَبَ وَتَرَکَنِیْ، فَتَحَرَّجْتُ مِنْہُ وَثَمَّرْتُہُ لَہُ وَأَصْلَحْتُہُ حَتَّی اشْتَرَیْتُ مِنْہُ بَقَرًا وَرَاعِیَھَا فَلَقِیَنِیْ بَعْدَ حِیْنٍ، فَقَالَ: اتَّقِ اللّٰہِ وَأَعْطِنِیْ أَجْرِیْ وَلَا تَظْلِمْنِیْ، فَقُلْتُ: انْطَلِقْ اَلٰی ذٰلِکَ الْبَقَرِ وَرَاعِیْھَا فَخُذْھَا، فَقَالَ: اتَّقِ اللّٰہَ وَلَاتَسْخَرْ بِیْ، فَقُلْتُ: اِنِّیْ لَسْتُ أَسْخَرُ بِکَ، فَانْطَلَقَ فَاسْتَاقَ ذٰلِکَ، فَاِنْ کُنْتَ تَعْلَمُ أَنِّیْ اِنَّمَا فَعَلْتُہُ ابْتِغَائَ مَرْضَاتِکَ خَشْیَۃً مِنْکَ فَافْرُجْ عَنَّا، فَتَدَحْرَجَتِ الصَّخْرَۃُ فَخَرَجُوْا یَمْشُوْنَ۔)) (مسند احمد: ۵۹۷۳)
۔ سیدنا عبدا للہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: تم میں سے جو آدمی ایک فرق چاول والے آدمی کی طرح ہونے کی طاقت رکھتا ہے، پس چاہیے کہ وہ اس کی طرح ہو جائے۔صحابہ نے کہا: اے اللہ کے رسول! ایک فرق چاول والے آدمی کا کیا قصہ ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: تین افراد سفر پر نکلے، آسمان ابر آلودہوگیا، اس لیے وہ ایک غار میں داخل ہو گئے، لیکن ہوا یوں کہ پہاڑ کے اوپر والے حصے سے ایک چٹان گری اور اس نے غار کا منہ بند کر دیا، انھوں نے اس کو ہٹانے کی کوشش تو کی، لیکنیہ ان کے بس کا کام نہیں تھا، پھر بعض افراد نے بعض سے کہا: تم بڑی مصیبت میں پڑ گئے ہو، اب ہر آدمی سب سے بہترین عمل کے ساتھ اللہ تعالیٰ کو پکارے، ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ ہم کو اس مصیبت سے نجات دے، پس ان میں ایک نے کہا: اے اللہ! تو جانتا ہے کہ میرے والدین بڑی عمر کے ہو گئے تھے، میں ان کے لیے دودھ دوہ کر ان کو پلاتا تھا، ایک دن جب میں ان کا دودھ لے کر آیا تو وہ سوچکے تھے، میںنے ان کے انتظار میں کھڑے ہو کر رات گزار دی، جبکہ ان کا دودھ اٹھایا ہوا تھا، میں اس چیز کو ناپسند کرتا تھا کہ ان سے پہلے کسی کو پلاؤں یا ان کو جگاؤں اور حال یہ تھا کہ میرے بچے بھوک کی وجہ سے میرے ارد گرد چلاتے رہے، اے اللہ! اگر تو جانتا ہے کہ میں نے یہ عمل تیری خشیت کی وجہ سے کیا تو اس چٹان کو ہم سے ہٹا دے، پس اس کا یہ کہنا تھا کہ چٹان کچھ حد تک سرک گئی، دوسرے شخص نے کہا: اے اللہ! تو جانتا ہے کہ میرے چچا کی ایک بیٹی تھی، وہ تیری مخلوق میں مجھے سب سے پیاری لگتی تھی، میں نے اس سے اس کے نفس کا سودا کرنے کی کوشش کی، لیکن اس نے کہا: نہیں، اللہ کی قسم! سو دیناروں سے کم پر کچھ نہیں ہو گا، پس جب میں نے یہ مقدار جمع کر کے اس کو دی اور اس سے برائی کرنے کے لیے خاوند کی طرح بیٹھ گیا تو اس نے کہا: اللہ سے ڈر جا اور اس مہر کو حق کے بغیر نہ توڑ، پس یہ سننا تھا کہ میں اس سے کھڑا ہو گیا، اے اللہ! اگر تو جانتا ہے کہ یہ کام میں نے تیری خشیت کی وجہ سے کیا ہے تو اس چٹان کو ہم سے دور کر دے، پس چٹان تھوڑی سی مزید سرک گئی اور ان کو آسمان نظر آنے لگا، اب تیسرے فرد نے کہا: اے اللہ! بیشک تو جانتا ہے کہ میں ایک فرق چاول کے عوض ایک مزدور رکھا، جب شام ہوئی تو میں نے اس پر اس کا حق پیش کیا، لیکن اس نے کسی وجہ سے اپنا حق وصول کرنے سے انکار کر دیا اور مجھے چھوڑ کر چل دیا، پس میں نے اس سے حرج محسوس کیا اور اس کے اس سرمائے کو ثمر آور بنایا اور اس کی اصلاح کی،یہاں تک کہ میں نے اس سے گائیں اور ان کا چرواہا خرید لیا، جب وہ کچھ عرصے کے بعد ملا تو اس نے کہا: اللہ سے ڈر جا اور میری مزدوری مجھے دے دے اور مجھ پر ظلم نہ کر، میں نے کہا: ان گائیوں اور چرواہے کی طرف جا اور ان کو لے جا، اس نے کہا: اللہ تعالیٰ سے ڈر اور میرے ساتھ مذاق تو نہ کر، میں نے کہا: بیشک میں تجھ سے مذاق نہیں کر رہا، پس وہ چلا اور ان کو ہانک کر لے گیا، پس اے اللہ! اگر تو جانتا ہے کہ میں نے تیری خوشنودی تلاش کرنے کے لیےیہ کام کیا تھا تو اس چٹان کو ہم سے ہٹا دے، پس چٹان لڑھک گئی اور وہ باہر نکل کر چلنے لگے۔
Musnad Ahmad, Hadith(10437)