۔ (۱۰۴۳۸)۔ عَنِ النُّعْمَانِ بْنِ بَشِیْرٍ رضی اللہ عنہ : أَنَّہُ سَمِعَ رَسُوْلَ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یَذْکُرُ الرَّقِیْمَ فَقَالَ: ((إِنَّ ثَلَا ثَۃً کَانُوْا فِیْ کَھْفٍ فَوَقَعَ الْجَبَلُ عَلٰی بَابِ الْکَھْفِ فَأَوْصَدَ عَلَیْھِمْ، قَالَ قَائِلٌ مِنْھُمْ: تَذَاکَرُوْا، أَیُّکُمْ عَمِلَ حَسَنَۃً لَعَلَّ اللّٰہَ عَزَّوَجَلَّ بِرَحْمَتِہِ یَرْحَمُنَا! فَقَالَ رَجُلٌ مِنْھُمْ: قَدْ عَمِلْتُ حَسَنَۃً مَرَّۃً، کَانَ لِی أُجَرَآئٌ یَعْمَلُوْنَ، فَجَائَ عُمَّالٌ لِیْ، فَاسْتَأجَرْتُ کُلَّ رَجُلٍ مِنْھُمْ بِأَجْرٍ مَعْلُوْمٍ فَجَائَ نِیْ رَجُلٌ ذَاتَ یَوْمٍ وَسْطَ النَّھَارِ فَاسْتَأْجَرْتُہُ بِشَطْرِ أَصْحَابِہٖ،فَعَمِلَفِی
بَقِیَّۃِ نَھَارِہِ کَمَا عَمِلَ کُلُّ رَجُلٍ مِنْھُمْ فِی نَھَارِہِ کُلِّہِ فَرَأَیْتُ عَلَیَّ فِی الذِّمَامِ أَنْ لاَّ أَنْقُصَہُ مِمَّا اسْتَأْجَرْتُ بِہٖأَصْحَابَہُ،لِمَاجَھِدَفِیْ عَمَلِہِ، فَقَال رَجُلُ مِنْھُمْ: أَتُعْطِی ھٰذَا مِثْلَ مَا أَعْطَیْتَنِیْ، وَلَمْ یَعْمَلْ اِلَّا نِصْفَ نَھَارٍ، فَقُلْتُ: یَا عَبْدَ اللّٰہِ! لَمْ أَبْخَسْکَ شَیْئًا مِنْ شَرْطِکَ وَ اِنَّمَا ھُوَ مَالِیْ، اَحْکُمُ فِیْہِ مَا شِئْتُ۔ قَالَ: فَغَضِبَ وَذَھَبَ وَتَرَکَ اَجْرَہٗ۔قَالَ: فَوَضَعْتُحَقَّہُفِی جَانِبٍ مِنَ الْبَیْتِ مَاشَائَ اللّٰہُ، ثُمَّ مَرَّتْ بِی بَعْدَ ذٰلِکَ بَقَرٌ،فَاشْتَرَیْتُ بِہٖفَصِیْلَۃً مِنَ البَقَرِ فَبَلَغْتْ مَاشَائَ اللّٰہُ فَمَرَّ بِی بَعْدَ حِیْنٍ شَیْخاً ضَعِیْفًا لَا أَعْرِفُہُ، فَقَالَ: إِنَّ لِیْ عِنْدَکَ حَقًّا، فَذَکَّرَنِیْہِ حَتّٰی عَرَفْتُہُ، فَقُلْتُ: إِیَّاکَ أَبْغِی، ھٰذَا حَقُّکَ فَعَرَضْتُہُ عَلَیْہِ جَمِیْعَھَا! فَقَالَ: یَا عَبْدَاللّٰہِ! لَا تَسْخَرْ بِی! إِن لَّمْ تَصَدَّقْ عَلَیَّ فَأَعْطِنِیْ حَقِّی، قُلْتُ: وَاللّٰہِ! لَا أَسْخَرُبِکَ، إِنَّھَا لَحَقُّکَ، مَا لِیْ مِنْھَا شَیْئٌ، فَدَفَعْتُھَا إِلَیْہِ جَمِیْعاً۔ اَللَّھُمَّ! اِنْ کُنْتُ فَعَلْتُ ذٰلِکَ لِوَجْھِکَ فَافْرُجْ عَنّا! قَالَ: فَانْصَدَعَ الْجَبَلُ حَتّٰی رَأَوْا مِنْہُ وَأَبْصَرُوْا۔ قَالَ الآخَرُ: قَدْ عَمِلْتُ حَسَنَۃً مَرَّۃً کَانَ لِی فَضْلٌ، فَأَصَابَتِ النَّاسَ شِدَّۃٌ، فَجَائَ تْنِی امْرَأَۃٌ تَطْلُبُ مِنِّی مَعْرُوْفاً، قَالَ: فَقُلْتُ: وَاللّٰہِ مَا ھُوَ دُوْنَ نَفْسِکِ! فَأَبَتْ عَلَیَّ فَذَھَبَتْ ثُمَّ رَجَعَتْ فَذَکَّرَتْنِیْ بِاللّٰہِ، فَأَبَیْتُ عَلَیْھَا وَقُلْتُ: لَا وَاللّٰہِ مَاھُوَ دُوْنَ نَفْسِکِ! فَأَبَتْ عَلَیَّ وَذَھَبَتْ، وَذَکَرَتْ لِزَوْجِھَا، فَقَالَ لَھَا: أَعْطِیْہِ نَفْسَکِ! وَاَغْنِیْ عِیَالَکِ فَرَجَعَتْ اِلَیَّ فَنَاشَدَتْنِیْ بِاللّٰہِ فَأَبَیْتُ عَلَیْھَا وَقُلْتُ: وَاللّٰہِ!مَاھُوَدُوْنَ نَفْسِکِ! فَلَمَّا رَأَتْ ذَالِکَ أَسْلَمَتْ إِلٰیَّ نَفْسَھَا، فَلَمَّا تَکَشَّفْتُھَا وَھَمَمْتُ بِھَا، اِرْتَعَدَتْ مِنْ تَحْتِی فَقُلْتُ: مَاشَأْنُکِ؟ قَالَتْ: أَخَافُ اللّٰہَ رَبَّ الْعَالَمِیْنَ! فَقُلْتُ لَھَا: خِفْتِہِ فِی الشِّدَّۃٍ، وَلَمْ أَخَفْہُ فِی الرَّخَائِ! فَتَرَکْتُھَا وَأَعْطَیْتُھَا مَا یَحُقُّ عَلَیَّ بِمَا تَکَشَّفْتُھَا، اَللّٰھُمَّ! إِنْ کُنْتُ فَعَلْتُ ذٰلِکَ لِوَجْھِکَ، فَافْرُجْ عَنَّاقَالَ: فَانْصَدَعَ حَتّٰی عَرَفُوْا وَتَبَیَّنَ لَھُمْ۔ قَالَ الآخَرُ: عَمِلْتُ حَسَنَۃً مَرَّۃً کَانَ لِی أبَوْانِِ شَیْخَانِ کَبِیْرَانِ، وَکَانَ لِی غَنَمٌ فَکُنْتُ أُطْعِمُ أَبَوَیَّ وَأَسْقِیْھِمَا، ثُمَّ رَجَعْتُ إِلٰی غَنَمِیْ قَالَ: فأَصَابَنِییَوْمُ غَیْثٍ حَبَسَنِیْ فَلَمْ أَبْرَحْ حَتّٰی أَمْسَیْتُ فَأَتَیْتُ أَھْلِیْ، وَأَخَذْتُ مَحْلَبِیْ، فَحَلَبْتُ غَنَمِیْ قَائِمَۃً فَمَضَیْتُ إِلٰی أَبَوَیَّ،فَوَجَدتُّھُمَا قَدْ نَامَا، فَشَقَّ عَلَیَّ أَنْ أُوْقِظَھُمَا، وَشَقَّ أَنْ أَتْرُکَ غَنَمِیْ، فَمَا بَرِحْتُ جَالِسًا، وَمَحْلَبِی عَلٰییَدِی حَتّٰی أَیْقَظَھُمَا الصُّبْحُ، فَسَقَیْتُھُمَا، اَللّٰھُمَّ! إِنْ کُنْتُ فَعَلْتُ ذٰلِکَ لِوَجْھِکَ فَافْرُجْ عَنَّا! قَالَ النُّعْمَانُ: لَکَاَنِّی أَسْمَعُ ھٰذِہِ مِنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ۔ قَالَ الْجَبَلُ: طَاقٌ، فَفَرَّجَ اللّٰہُ عَنْھُمْ فَخَرَجُوْا۔)) (مسند احمد: ۱۸۶۰۷)
۔ سیدنا نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے غار والوں کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا: ایک غار میں تین آدمیوں نے پناہ لی، پہاڑ کا کچھ حصہ غار کے دروازہ پر گرا اور اس کا راستہ بند کر دیا۔ ایک نے کہا: یاد کرو، تم میں سے کس نے نیک عمل کیا ہے، ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنی رحمت کے بسبب ہم پر رحم کر دے۔ ایک آدمی نے کہا: میں نے ایک دفعہ ایک نیکی کی تھی، (اس کی تفصیلیہ ہے کہ) میرے کچھ مزدور کام کرتے تھے، میرے عمال میرے پاس آئے، میں نے ہر ایک کو معین مزدوری دی۔ ایک دن ایک آدمی نصف النھار کے وقت میرے پاس آیا، میں نے اسے مزدوری پر تو لگا دیا، لیکن (نصف دن) کی وجہ سے دوسرے مزدوروں کی مزدوری کے نصف کے بقدردینے کا طے کیا ، لیکن اس نے اس نصف دن میں اتنا کام کیا، جو دوسروں نے پورے دن میں کیا تھا، اس لیے میں نے اپنی ذمہ داری سمجھی کہ اسے اس کے ساتھیوں کی طرح پوری اجرت دوں، کیونکہ اس نے اپنا کام کرنے میں پوری محنت کی ہے۔ ان میں سے ایک آدمی نے (اعتراض کرتے ہوئے) کہا: کیا تو اس کو وہی اجرت دے رہا ہے جو مجھے دی، حالانکہ اس نے نصف دن کام کیا ہے؟میں نے کہا: اللہ کے بندے! جو کچھ تجھ سے تیرے بارے میں طے ہوا تھا، اس میں میں نے کوئی کمی نہیں کی،یہ میرا مال ہے، میں جیسے چاہوں اس کے بارے میں فیصلہ کر سکتا ہوں۔ (میری اس بات سے) اسے غصہ آیا اور وہ اجرت چھوڑ کر چلا گیا۔ میں نے گھر کے ایک کونے میں اس کا حق رکھ دیا، پھر ایک دن میرے پاس سے گائے گزری، میں نے اس کی اجرت والے مال سے دودھ چھڑایا ہوا گائے کا بچہ خرید لیا، (اس کی نسل بڑھتی رہی اور) گائیوں میں اضافہ ہوتا رہا۔ ایکدن وہی مزدور میرے پاس سے گزرا، وہ بوڑھا اور کمزور ہو چکا تھا، اس لئے میں نے اسے نہیں پہچانا۔ اس نے کہا: میرا حق تیرے پاس ہے، جب اس نے مجھے یاد کرایا تو بات میری سمجھ میں آ گئی۔ میں نے کہا: میں تو تیری ہی تلاش میں تھا، میں نے اس پر (ساری گائیں) پیش کرتے ہوئے کہا: یہ تیرا حق ہے۔ اس نے کہا: او اللہ کے بندے! میرے ساتھ مذاق تو نہ کر، اگر میرے ساتھ ہمدردی نہیں کر سکتا تو میرا حق تو مجھے دے دے۔ میں نے کہا: اللہ کی قسم! میں تیرے ساتھ مذاق نہیں کر رہا، یہ تیرا ہی حق ہے، اس میں کوئی چیز میری نہیں ہے، سو میں نے وہ سارا مال اسے دے دیا۔ اے اللہ! اگر میں نے یہ نیکی تیری ذات کے لئے کی ہے تو اس سے ہمارے لئے گنجائش پیدا کر۔ (اس دعا کی وجہ سے) پتھر اتنا ہٹ (یا پھٹ) گیا کہ باہر کا ماحول انھیں نظر آنے لگ گیا۔ دوسرے نے کہا: میں نے بھی ایک دفعہ ایک نیکی کی تھی۔ (تفصیلیہ ہے کہ) میرے پاس زائد از ضرورت مال تھا، لوگ شدت میں مبتلا ہو گئے، ایک عورت میرے پاس کچھ مال طلب کرنے کے لئے آئی۔ میں نے کہا: اللہ کی قسم! تیری شرمگاہ کے علاوہ اس کی کوئی قیمت نہیں ہے۔ اس نے (ایسا کرنے سے) انکار کر دیا اور وہ چلی گئی، پھر وہ لوٹ آئی اور مجھے اللہ تعالیٰ کا واسطہ دیا، لیکن میں انکار پر تلا رہا اور کہا: نہیں، اللہ کی قسم! تیری شرمگاہ کے علاوہ اس کی کوئی قیمت نہیں۔ اس نے میرے مطالبے کا انکار دیا اور چلی گئی۔ اس نے یہ بات اپنے خاوند کو بتلائی تو اس نے کہا: تو اسے اپنا نفس دے دے (یعنی اسے زنا کرنے دے) اور (کچھ لے کر) اپنے بچوں کی ضرورت پورا کر۔ وہ آئی اور مجھ پر اللہ تعالیٰ کی قسم کھائی، لیکن میں نے (پہلے کی طرح) انکار ہی کیا اور کہا: پہلے اپنا نفس فروخت کرنا ہو گا (یعنی اپنی عزت لٹانی ہو گی) ۔ جب اس نے یہ صورتحال دیکھی تو اپنے آپ کو میرے سپرد کر دیا۔ جب میں نے اسے ننگا کیا اور بدکاری کا ارادہ کر لیا تو اس پر میرے نیچے کپکپی طاری ہو گئی۔ میں نے اسے کہا: تجھے کیا ہو گیا ہے؟ اس نے کہا: میں جہانوں کے پالنہار اللہ سے ڈر رہی ہوں۔ میں نے اسے کہا: تو تنگدستی کے باوجود اس سے ڈرتی ہے اور میں تو خوشحالی میں بھی نہیں ڈرتا۔ پس میں نے اسے چھوڑ دیا اور اسے ننگا کرنے کے جرم میں جو کچھ مجھ پر عائد ہوتا تھا، میں نے اسے دے دیا۔ اے اللہ! اگر میں نے یہ نیکی تیری ذات کے لئے کی تھی تو آج اس (چٹان) کو ہٹا دے۔ (اس دعا کی وجہ سے) وہ مزید ہٹ گئی، حتی کہ وہ آپس میں ایک دوسرے کو پہچاننے لگ گئے۔ تیسرے نے کہا: میں نے بھی ایک نیکی کی تھی۔ (اس کی تفصیلیہ ہے کہ) میرے والدین بوڑھے تھے اور میرے پاس بکریاں تھیں۔ میں اپنے والدین کو کھانا کھلاتا اور دودھ پلاتا تھا اور پھر اپنی بکریوں کی طرف لوٹ جاتا تھا۔ ایک دن بارش نے مجھے (وقت پر) لوٹنے سے روک لیا، وہیں شام ہو گئی۔ جب میں گھر پہنچا، برتن لیا، بکریوں کا دودھ دوہا اور اپنے والدین کے پاس لے کر گیا، لیکن وہ (میرے پہنچنے سے پہلے) سو چکے تھے۔ ایک طرف ان کو بیدار کرنا مجھ پر گراں گزر رہا تھا اور دوسری طرف بکریوں کو (یوں ہی بے حفاظت چھوڑ آنا) پریشان کر رہا تھا۔ بہرحال میں برتن تھامے ان کے انتظار میں بیٹھا رہا، حتی کہ وہ صبح کو بیدار ہوئے اور میں نے ان کو دودھ پلایا۔ اے اللہ! اگر میں نے یہ نیکی تیرے لئے کی تھی تو (اس چٹان کو) ہٹا دے۔ سیدنا نعمان کہتے ہیں: گویا کہ میں یہ الفاظ اب بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سن رہا ہوں، اللہ تعالیٰ نے اس (پتھر کو غار کے دہانے سے) ہٹا دیئے اور وہ نکل گئے۔
Musnad Ahmad, Hadith(10438)