۔ (۱۰۴۴۰)۔ عَنِ ابْنِ مَسْعُوْدٍ قَالَ بَیْنَمَا رَجُلٌ فِیْمَنْ کَانَ قَبْلَکُمْ کَانَ فِیْ مَمْلَکَتِہِ فَتَفَکَّرَ فَعَلِمَ أَنَّ ذٰلِکَ مُنْقَطِعٌ عَنْہُ وَاَنَّ مَا ھُوَ فِیْہِ قَدْ شَغَلَہُ عَنْ عِبَادَۃِ رَبِّہِ فَتَسَرَّبَ فَانْسَابَ ذَاتَ لَیْلَۃٍمِنْ قَصْرِہِ فَأَصْبَحَ فِیْ مَمْلَکَۃِ غَیْرِہِ، وَأَتَی سَاحِلَ الْبَحْرِ وَکَانَ بِہٖیَضْرِبُ اللَّبِنَ بِالْأَجْرِ فَیَأْکُلُ وَیَتَصَدَّقُ بِالْفَضْلِ، فَلَمْ یَزَلْ کَذٰلِکَ حَتّٰی رَقِیَ أَمْرُہُ اِلٰی مَلِکِھِمْ وَعِبَادَتُہُ وَفَضْلُہُ، فَأَرْسَلَ مَلِکُھُمْ اِلَیْہِ أَنْ یَأْتِیَہُ فَأَبٰی أَنْ یَأْتِیَہُ، فَأَعَادَ ثُمَّ أَعَادَ اِلَیْہِ فَأَبٰی أَنْ یَأْتِیَہُ وَقَالَ: مَا لَہُ وَمَا لِیْ؟ قَالَ: فَرَکِبَ الْمَلَکُ فَلَمَّا رَآہُ الرَّجُلُ وَلّٰی ھَارِبًا، فَلَمَّا رَأٰی ذٰلِکَ الْمَلِکُ رَکَضَ فِیْ أَثْرِہِ فَلَمْ یُدْرِکْہُ، قَالَ: فَنَادَاہُ یَا عَبْدَ اللّٰہِ! اِنَّہُ لَیْسَ عَلَیْکَ مِنِّیْ بَأْسٌ، فَأَقَامَ حَتّٰی أَدْرَکَہُ فَقَالَ لَہُ: مَنْ أَنْتَ رَحِمَکَ اللّٰہُ؟ قَالَ: أَنَا فَلَانُ بْنُ فَلَانٍ صَاحِب مُلْکِ کَذَا وَکَذَا، تَفَکَّرْتُ فِیْ أَمْرِیْ فَعَلِمْتُ أَنَّ مَا أَنَا فِیْہِ مُنْقَطِعٌ، فَاِنَّہُ شَغَلَنِیْ عَنْ عِبَادَۃِ رَبِّیْ فَتَرَکْتُہُ وَ جِئْتُ ھٰھُنَا أَعْبُدُ رَبِّیْ عَزَّ وَجَلَّ، فَقَالَ: مَا أَنْتَ بِِأَحْوَجَ اِلٰی مَا صَنَعْتَ مِنِّیْ، قَالَ: ثَمَّ نَزَلَ عَنْ دَابَّتِہِ فَسَیَّبَھَا ثُمَّّ نَزَلَ عَنْ
دَابَّتِہِ فَسَیَّبَھَا ثُمَّّ تَبِعَہُ فَکَانَا جَمِیْعًایَعْبُدَانِ اللّٰہَ عَزَّ وَجَلَّ فَدَعَوَا اللّٰہَ أَنْ یُمِیْتَھُمَا جَمِیْعًا، قَالَ: فَمَاتَا، قَالَ عَبْدُاللّٰہِ: لَوْ کُنْتُ بِرُمَیْلَۃِ مِصْرَ لَأَرَیْتُکُمْ قُبُوْرَھُمَا بِالنَّعْتِ الَّذِیْ نَعَتَ لَنَا رَسُوْلُ اللّٰہُ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ۔ (مسند احمد: ۴۳۱۲)
۔ سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: تم سے پہلے ایک آدمی اپنی مملکت میں موجود تھا، اس نے سوچا اور پھر جان لیا کہ یہ سارا کچھ اس سے منقطع ہونے والا ہے اور اس مملکت نے مجھے اپنے ربّ کی عبادت سے روک رکھا ہے، پھر وہ گھسا (یعنی گھر میں الگ تھلک ہو گیا) اور ایک رات کو اپنے محل سے نکلا اور بے روک چلتا رہا، یہاں تک کہ صبح کے وقت کسی اور کی سلطنت میں پہنچ گیا، پھر وہ سمندر کے ساحل پر آیا،وہاں اجرت پر اینٹیں بناتا، اس طرح رزق حاصل کرتا اور زائد مال کا صدقہ کر دیتا، اس کا معاملہ اسی طرح رہا، یہاں تک کہ بادشاہ کو اس کے معاملے، عبادت اور فضیلت کا پتہ چل گیا، بادشاہ نے اس کو اپنے پاس آنے کا پیغام بھیجا، لیکن اس نے آنے سے انکار کر دیا، اس نے دوبارہ پیغام بھیجا، لیکن اس نے اس بار بھی انکار کر دیا اور اس نے کہا: اس کا مجھ سے کیا تعلق ہے؟ پھر ایک دن بادشاہ سوار ہوا اور اس کے پاس پہنچ گیا، لیکن جب اس نے بادشاہ کو دیکھا تو اس نے بھاگنا شروع کر دیا، جب بادشاہ نے اس کو اس طرح کرتے ہوئے دیکھا تو اس نے بھی سواری کو ایڑ لگائی، لیکن وہ اس کو نہ پا سکا، بالآخر بادشاہ نے کہا: او اللہ کے بندے! میری طرف سے تجھ پر کوئی حرج نہیں ہو گا، پس وہ کھڑا ہو گیا،یہاں تک کہ اس نے اس کو پا لیا اور کہا: اللہ تجھ پر رحم کرے، تو کون ہے؟ اس نے کہا: میں فلاں بن فلاں اور فلاں بادشاہت والا ہوں، میں نے اپنے معاملے میں غور کیا اور یہ جان لیا کہ جو کچھ میرے آس پاس ہے، یہ ختم ہونے والا ہے، لیکن اس نے مجھے اپنے ربّ کی عبادت سے مشغول کر رکھا ہے، اس لیے میں اُس چیز کو چھوڑ کر یہاں آگیا اور اب اپنے ربّ کی عبادت کر رہا ہوں، یہ سن کر بادشاہ نے کہا: جو کچھ تو نے کیا ہے، اس معاملے میں تو مجھ سے زیادہ محتاج نہیںہے، پھر وہ آدمی اپنی سواری سے اترا اور اس کو چھوڑ دیا اور وہ بادشاہ بھی اپنی سواری سے اترا اور اس کو چھوڑ دیا اور اس آدمی کی پیروی کرنے لگا، پس وہ دونوں اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتے اور ان دونوں نے اللہ تعالیٰ سے یہ دعا کی کہ وہ ان کو اکٹھا فوت کرے، پس پھر وہ وفات پا گئے۔ سیدنا عبد اللہ رضی اللہ عنہ نے کہا: اگر میں مصر کے رُمیلہ میدان میں ہوتا تو تم کو ان دونوںکی قبریں ان صفات سے پہچان کر دکھاتا، جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہم کو بیان کی تھیں۔
Musnad Ahmad, Hadith(10440)