Blog
Books



۔ (۱۰۵۶۷)۔ عَنِ ابْنِ شِھَابٍ، قَالَ أَنَسُ بْنُ مَالِکٍ: کَانَ أُبَیُّ بْنُ کَعْبٍ یُحَدِّثُ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: ((فُرِجَ سَقْفُ بَیْتِیْ وَأَنَا بِمَکَّۃَ فَنَزَلَ جِبْرِیْلُ فَفَرَجَ صَدْرِیْ ثُمَّّ غَسَلَہُ مِنْ مَائِ زَمْزَمَ، ثُمَّّ جَائَ بِطَسْتٍ مِنْ ذَھَبٍ مُمْتَلِیئٍ حِکْمَۃً وَاِیْمَانًا، فَأَفْرَغَھَا فِیْ صَدْرِیْ ثُمَّّ أَطْبَقَہُ ثُمّّ أَخَذَ بِیَدِیْ فَعَرَجَ بِیْ اِلَی السَّمَائِ، فَلَمَّا جَائَ السَّمَائَ الدُّنْیَا فَافْتَتَحَ، فَقَالَ: مَنْ ھَذَا؟ قَالَ: جِبْرِیْلُ، قَالَ: ھَلْ مَعَکَ أَحَدٌ؟ قَالَ: نَعَمْ، مَعِیْ مُحَمَّدٌ، قَالَ: أُرْسِلَ اِلَیْہِ؟ قَالَ: نَعَمْ، فَفُتِحَ فَلَمَّا عَلَوْنَا السَّمَائَ الدُّنْیَا، اِذَا رَجُلٌ عَنْ یَمِیْنِہِ أَسْوِدَۃٌ وَعَنْ یَسَارِہِ أَسْوِدَۃٌ، وَاِذَا نَظَرَ قِبْلَ یَمِیْنِہِ تَبَسَّمَ، وَاِذَا نَظَرَ قِبْلَ یَسَارِہِ بَکٰی، قَالَ: مَرْحَبًا بِالنَّبِیِّ الصَّالِحِ وَالْاِبْنِ الصَّالِحِ، قَالَ: قُلْتُ لِجِبْرِیْلَ عَلَیْہِ السَّلَامُ: مَنْ ھَذَا؟ قَالَ: ھٰذَا آدَمُ وَھٰذِہِ الْأَسْوِدَۃُ عَنْ یَمِیْنِہِ وَشِمَالِہِ نَسَمُ بَنِیْہِ، فَأَھْلُ الْیَمِیْنِ ھُمْ أَھْلُ الْجَنَّۃِ، وَالْأَسْوِدَۃُ الَّتِیْ عَنْ شِمَالِہِ أَھْلُ النَّارِ، فَاِذَا نَظَرَ قِبَلَ یَمِیْنِہِ ضَحِکَ، وَاِذَا نَظَرَ قِبَلَ شِمَالِہِ بَکٰی، قَالَ: ثُمَّّ عَرَجَ بِیْ جِبْرِیْلُ حَتّٰی جَاوَزَ السَّمَائَ الثَّانِیَّۃَ فَقَالَ لِخَازِنِھَا: افْتَحْ، فَقَالَ لَہُ خَازِنُھَا مِثْلَ مَا قَالَ خَازِنُ السَّمَائِ الدُّنْیَا فَفَتَحَ لَہُ، (قَالَ اَنَسُ بْنُ مَالِکٍ: فَذَکَرَ اَنَّہُ وَجَدَ فِیْ السَّمٰوَاتِ آدَمَ وَاِدْرِیْسَ وَمُوْسٰی وَعِیْسٰی وَاِبْرَاھِیْمَ عَلَیْھِمُ الصَّلَاۃُ وَالسِّلَامُ، وَلَمْ یَثْبُتْ لِیْ کَیْفُ مَنَازِلُھُمْ غَیْرَ أَنَّہُ ذَکَرَ أَنَّہُ وَجَدَ آدَمَ فِیْ السَّمَائِ الدُّنْیَا وَاِبْرَاھِیْمَ فِیْ السَّمَائِ السَّادِسَۃِ، قَالَ أَنَسٌ:) فَلَمَّا مَرَّ جِبْرِیْلُ عَلَیْہِ السِّلَامُ وَرَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بِاِدْرِیْسَ قَالَ: مَرْحَبًا بِالنَّبِیِّ الصَّالِحِ وَالْأَخِ الصَّالِحِ، قُلْتُ: مَنْ ھَذَا؟ قَالَ: ھٰذَا اِدْرِیْسُ، قَالَ: ثُمّّ مررت بموسی، فقَالَ: مَرْحَبًا بِالنَّبِیِّ الصَّالِحِ وَالْأَخِ الصَّالِحِ، قُلْتُ: مَنْ ھَذَا؟ قَالَ: ھٰذَا مُوْسٰی، ثُمّّ مَرَرْتُ بِعِیْسٰی، فَقَالَ: مَرْحَبًا بِالنَّبِیِّ الصَّالِحِ وَالْأَخِ الصَّالِحِ، قُلْتُ: مَنْ ھَذَا؟ قَالَ: ھٰذَا عِیْسَی بْنُ مَرْیَمَ، قَالَ: ثُمَّّ مَرَرْتُ بِاِبْرَاھِیْمَ، فقَالَ: مَرْحَبًا بِالنَّبِیِّ الصَّالِحِ وَالْاِبْنِ الصَّالِحِ، قُلْتُ: مَنْ ھَذَا؟ قَالَ: ھٰذَا اِبْرَاھِیْمُ عَلَیْہِ السَّلَامُ، (قَالَ ابْنُ شِھَابٍ: وَأَخْبَرَنِیْ اِبْنُ حَزْمٍ: أَنَّ ابْنَ عَبَّاسٍ وَأَبَا حَبَّۃَ الْأَنْصَارِیَّیَقُوْلَانِ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ثُمَّّ عَرَجَ بِیْ حَتَّی ظَھَرْتُ بِمُسْتَوی أَسْمَعُ صَرِیْفَ الْاَقْلَامِ، قَالَ ابْنُ حَزْمٍ وَأَنَسُ بْنُ مَالِکٍ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : فَرَضَ اللّٰہُ تَبَارَکَ وَتَعَالَی عَلٰی اُمَّتِیْ خَمْسِیْنَ صَلاۃً، قَالَ: فَرَجَعْتُ بِذٰلِکَ حَتّٰی أَمُرَّ عَلَی مُوْسٰی عَلَیْہِ السِّلَامُ، فقَالَ: مَاذَا فَرَضَ رَبُّکَ تَبَارَکَ وَتَعَالٰی عَلٰی أُمَّتِکَ؟ قُلْتُ: فَرَضَ عَلَیْھِمْ خَمْسِیْنَ صَلَاۃً، فَقَالَ لِیْ مُوْسٰی عَلَیْہِ السَّلَامُ: رَاجِعْ رَبَّکَ تَبَارَکَ وَتَعَالٰی فَاِنَّ أُمَّتَکَ لَا تُطِیْقُ ذٰلِکَ، قَالَ: فَرَاجَعْتُ رَبِّیْ عَزَّ وَجَلَّ فَوَضَعَ شَطْرَھَا، فَرَجَعْتُ اِلٰی مُوْسٰی فَاَخْبَرْتُہُ، فَقَالَ: رَاجِعْ رَبَّکَ فَاِنَّ أُمَّتَکَ لَا تُطِیْقُ ذٰلِکَ، قَالَ: فَرَاجَعْتُ رَبِّیْ عَزَّ وَجَلَّ فَقَالَ: ھِیَ خَمْسٌ وَھِیَ خَمْسُوْنَ لَا یُبَدَّلُ الْقَوْلُ لَدَیَّ، قَالَ: فَرَجَعْتُ اِلَی مُوْسٰی عَلَیْہِ السِّلَامُ، فَقَالَ: رَاجِعْ رَبَّکَ، فَقُلْتُ: قَدِ اسْتَحْیَیْتُ مِنْ رَبِّیْ تَبَارَکَ وَتَعَالٰی، قَالَ: ثُمَّّ انْطَلَقَ بِیْ حَتّٰی أَتٰی بِیْ سِدْرَۃَ الْمُنْتَھٰی، قَالَ: فَغَشّٰھَا اَلْوَانٌ مَا أَدْرِیْ مَاھِیَ، قَالَ: ثُمَّّ اُدْخِلْتُ الْجَنَّۃَ فَاِذَا فِیْھَا جَنَابِذُ الْلُؤْلُؤِ وَاِذَا تُرَابُھَا الْمِسْکُ۔)) (مسند احمد: ۲۱۶۱۲)
۔ سیدنا انس بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ سیدنا ابی بن کعب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میرے گھر کی چھت کو کھولا گیا، جبکہ میں مکہ میں تھا، جبریل اترے، انھوں نے میرا سینہ چاک کیا، اس کو زمزم کے پانی سے دھویا، پھر سونے کا ایک تھال لے کر آئے، وہ حکمت اور ایمان سے بھرا ہوا تھا، اس کو میرے سینے میں بہا دیا اور پھر اس کو بند کر دیا، پھر میرا ہاتھ پکڑا اور مجھے لے کر آسمان کی طرف چڑھ گئے، جب آسمانِ دنیا کے پاس پہنچے تو دروازہ کھولنے کا مطالبہ کیا، پہرے دار نے کہا: یہ کون آیا ہے؟ اس نے کہا: جبریل ہوں، اس نے کہا: کیا تیرے ساتھ کوئی اور بھی ہے؟ اس نے کہا: جی ہاں،میرے ساتھ محمد ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ہیں، اس نے کہا: کیا ان کو پیغام بھیجا گیا ہے؟ اس نے کہا: جی ہاں، پس ہمارے لیے دروازہ کھول دیا گیا، جب ہم آسمان دنیا سے اوپر کو چڑھے تو دیکھا کہ ایک آدمی ہے، اس کے دائیں طرف بھی کچھ وجود ہیں اور بائیں طرف بھی، وہ دائیں طرف دیکھ کر مسکراتا ہے اور بائیں طرف دیکھ کر روتا ہے، اس نے مجھے کہا: صالح نبی اور صالح بیٹے کو مرحبا، میں نے جبریل سے کہا: یہ کون ہے؟ اس نے کہا: یہ حضرت آدم علیہ السلام ہیں اور یہ ان کے دائیں بائیں جو وجود نظر آ رہے ہیں،یہ ان کی اولاد کی روحیں ہیں، دائیں طرف والے جنتی ہیں اور بائیں طرف والے جہنمی ہیں، اسی وجہ سے یہ دائیں طرف والوں کو دیکھ کر مسکراتے ہیں اور بائیں طرف والوں کو دیکھ کر روتے ہیں، پھر جبریل مجھے لے کر آگے کو بڑھے اور دوسرے آسمان تک جا پہنچے اور پہرے دار سے کہا: دروازہ کھولو، اس نے آگے سے وہی باتیں کیں، جو آسمان دنیا والے پہرے دار نے کہی تھیں۔ انس بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں: پھر انھوں نے بیان کیا کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے آسمانوں میں آدم، ادریس، موسی، عیسی اور ابراہیمh کو پایا، لیکنیہ بات مجھے یاد نہ رہ سکی کہ ان کی منزلیں کیسی تھیں، (یعنی کون کس آسمان میں تھا) البتہ اتنا یاد ہے کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے آدم علیہ السلام کو آسمانِ دنیا میں اور ابراہیم علیہ السلام کو چھٹے آسمان میں پایا، سیدنا انس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں: جب جبریل علیہ السلام اور رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ، حضرت ادریس کے پاس سے گزرے تو انھوں نے کہا: صالح نبی اور صالح بھائی کو مرحبا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فرماتے ہیں: میں نے کہا: یہ کون ہے؟ جبریل نے کہا:یہ ادریس علیہ السلام ہیں، پھر میں موسی علیہ السلام کے پاس سے گزرا، انھوں نے مجھے کہا: صالح نبی اور صالح بھائی کو خوش آمدید، میں نے کہا: یہ کون ہے؟ اس نے کہا:یہ موسی علیہ السلام ہیں پھر میں عیسی علیہ السلام کے پاس سے گزرا، انھوں نے کہا: صالح نبی اور صالح بھائی کو مرحبا، میں نے کہا: یہ کون ہے؟ اس نے کہا:یہ عیسی بن مریم علیہ السلام ہیں، پھر میں ابراہیم علیہ السلام کے پاس سے گزرا، انھوں ے کہا: صالح نبی اور صالح بیٹے کو خوش آمدید، میں نے کہا: یہ کون ہے؟ اس نے کہا: یہ ابراہیم علیہ السلام ہیں۔ ابن حزم نے کہا: سیدنا عبدا للہ بن عباس اور سیدنا ابو حبہ انصاریfنے روایت کیا کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: پھر وہ مجھے لے کر آگے کو بڑھے، یہاں تک کہ میں ایسی سطح پر چڑھ گیا کہ مجھے قلمیں چلنے کی آواز سنائی دی۔ سیدنا انس بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے میری امت پر پچاس نمازیں فرض کیں، پس میں ان کے ساتھ واپس آیا اور موسی علیہ السلام کے پاس سے گزرا، انھوں نے مجھ سے پوچھا: آپ کے ربّ نے آپ کی امت پر کیا فرض کیا ہے؟ میں نے کہا: اللہ تعالیٰ نے ان پر پچاس نمازیں فرض کی ہیں، موسی علیہ السلام نے مجھ سے کہا: آپ اپنے ربّ سے رجوع کریں، کیونکہ آپ کی امت اتنی نمازوں کی ادائیگی کی طاقت نہیں رکھی، پس میں نے اپنے ربّ سے مراجعہ کیا اور اس نے نصف نمازیں کم کر دیں، میں دوبارہ موسی علیہ السلام کی طرف لوٹا اور ان کو صورتحال سے آگاہ کیا، انھوں نے کہا: آپ اپنے ربّ کے پاس واپس جائیں، آپ کی امت یہ عمل نہیں کر سکتی، پس میں پھر اپنے ربّ کے پاس گیا، اللہ تعالیٰ نے کہا: یہ پانچ ہیں اور یہ پچاس ہیں، میرے ہاں قول تبدیل نہیں ہوتا، پس میں موسی علیہ السلام کے طرف لوٹا، انھوں نے پھر کہا کہ آپ ابھی تک اپنے ربّ سے مراجعہ کریں، لیکن میں نے کہا: اب تو میں اپنے ربّ تعالیٰ سے شرماتا ہوں، پھر جبریل مجھے لے کر سدرۃ المنتہی کی طرف گیا، اس پر کئی رنگ تھے اور میں نہیں جانتا کہ وہ کون کون سے تھے، پھر مجھے جنت میں داخل کیا گیا، اس میں دیکھا کہ لؤلؤ موتیوں کے قبے تھے اور اس کی مٹی کستوری تھی۔
Musnad Ahmad, Hadith(10567)
Background
Arabic

Urdu

English