۔ (۱۰۶۹۵)۔ عَنْ عَلِیٍّ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ قَالَ: لَمَّا قَدِمْنَا الْمَدِینَۃَ أَصَبْنَا مِنْ ثِمَارِہَا، فَاجْتَوَیْنَاہَا وَأَصَابَنَا بِہَا وَعْکٌ، وَکَانَ النَّبِیُّ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یَتَخَبَّرُ عَنْ بَدْرٍ، فَلَمَّا بَلَغَنَا أَنَّ الْمُشْرِکِینَ قَدْ أَقْبَلُوا، سَارَ رَسُولُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم إِلٰی بَدْرٍ، وَبَدْرٌ بِئْرٌ،فَسَبَقَنَا الْمُشْرِکُونَ إِلَیْہَا، فَوَجَدْنَا فِیہَا رَجُلَیْنِ مِنْہُمْ، رَجُلًا مِنْ قُرَیْشٍ وَمَوْلًی لِعُقْبَۃَ بْنِ أَبِی مُعَیْطٍ، فَأَمَّا الْقُرَشِیُّ فَانْفَلَتَ، وَأَمَّا مَوْلَی عُقْبَۃَ فَأَخَذْنَاہُ فَجَعَلْنَا نَقُولُ لَہُ: کَمِ الْقَوْمُ؟ فَیَقُولُ: ہُمْ، وَاللّٰہِ! کَثِیرٌ عَدَدُہُمْ، شَدِیدٌ
بَأْسُہُمْ، فَجَعَلَ الْمُسْلِمُونَ، إِذْ قَالَ ذٰلِکَ، ضَرَبُوہُ حَتّٰی انْتَہَوْا بِہِ إِلَی النَّبِیِّ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فَقَالَ لَہُ: ((کَمِ الْقَوْمُ؟)) قَالَ: ہُمْ، وَاللّٰہِ! کَثِیرٌ عَدَدُہُمْ، شَدِیدٌ بَأْسُہُمْ، فَجَہَدَ النَّبِیُّ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم أَنْ یُخْبِرَہُ کَمْ ہُمْ فَأَبٰی، ثُمَّ إِنَّ النَّبِیَّ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سَأَلَہُ: ((کَمْ یَنْحَرُونَ مِنَ الْجُزُرِ۔)) فَقَالَ: عَشْرًا کُلَّ یَوْمٍ، فَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ((الْقَوْمُ أَلْفٌ کُلُّ جَزُورٍ لِمِائَۃٍ۔)) وَتَبِعَہَا ثُمَّ إِنَّہُ أَصَابَنَا مِنَ اللَّیْلِ طَشٌّ مِنْ مَطَرٍ، فَانْطَلَقْنَا تَحْتَ الشَّجَرِ وَالْحَجَفِ نَسْتَظِلُّ تَحْتَہَا مِنَ الْمَطَرِ، وَبَاتَ رَسُولُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یَدْعُو رَبَّہُ عَزَّ وَجَلَّ، وَیَقُولُ: ((اللَّہُمَّ إِنَّکَ إِنْ تُہْلِکْ ہٰذِہِ الْفِئَۃَ لَا تُعْبَدْ۔)) قَالَ: فَلَمَّا أَنْ طَلَعَ الْفَجْرُ نَادَی الصَّلَاۃَ عِبَادَ اللّٰہِ، فَجَائَ النَّاسُ مِنْ تَحْتِ الشَّجَرِ وَالْحَجَفِ فَصَلَّی بِنَا رَسُولُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وَحَرَّضَ عَلَی الْقِتَالِ، ثُمَّ قَالَ: ((إِنَّ جَمْعَ قُرَیْشٍ تَحْتَ ہٰذِہِ الضِّلَعِ الْحَمْرَائِ مِنَ الْجَبَلِ۔)) فَلَمَّا دَنَا الْقَوْمُ مِنَّا وَصَافَفْنَاہُمْ، إِذَا رَجُلٌ مِنْہُمْ عَلٰی جَمَلٍ لَہُ أَحْمَرَ یَسِیرُ فِی الْقَوْمِ، فَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ((یَا عَلِیُّ! نَادِ لِی حَمْزَۃَ۔)) وَکَانَ أَقْرَبَہُمْ مِنَ الْمُشْرِکِینَ مَنْ صَاحِبُ الْجَمَلِ الْأَحْمَرِ، وَمَاذَا یَقُولُ لَہُمْ، ثُمَّ قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ((إِنْ یَکُنْ فِی الْقَوْمِ أَحَدٌ یَأْمُرُ بِخَیْرٍ فَعَسٰی أَنْ یَکُونَ صَاحِبَ الْجَمَلِ الْأَحْمَرِ۔)) فَجَائَ حَمْزَۃُ، فَقَالَ: ہُوَ عُتْبَۃُ بْنُ رَبِیعَۃَ وَہُوَ یَنْہٰی عَنِ الْقِتَالِ، وَیَقُولُ لَہُمْ: یَا قَوْمُ! إِنِّی أَرٰی قَوْمًا مُسْتَمِیتِینَ لَا تَصِلُونَ إِلَیْہِمْ وَفِیکُمْ خَیْرٌ،یَا قَوْمُ! اعْصِبُوہَا الْیَوْمَ بِرَأْسِی، وَقُولُوا: جَبُنَ عُتْبَۃُ بْنُ رَبِیعَۃَ وَقَدْ عَلِمْتُمْ أَنِّی لَسْتُ بِأَجْبَنِکُمْ، فَسَمِعَ ذٰلِکَ أَبُو جَہْلٍ فَقَالَ: أَنْتَ تَقُولُ ہٰذَا؟ وَاللّٰہِ! لَوْ غَیْرُکَیَقُولُ ہٰذَا، لَأَعْضَضْتُہُ قَدْ مَلَأَتْ رِئَتُکَ جَوْفَکَ رُعْبًا، فَقَالَ عُتْبَۃُ: إِیَّایَ تُعَیِّرُیَا مُصَفِّرَ اسْتِہِ! سَتَعْلَمُ الْیَوْمَ أَیُّنَا الْجَبَانُ، قَالَ: فَبَرَزَ عُتْبَۃُ وَأَخُوہُ شَیْبَۃُ وَابْنُہُ الْوَلِیدُ حَمِیَّۃً، فَقَالُوا: مَنْ یُبَارِزُ؟ فَخَرَجَ فِتْیَۃٌ مِنْ الْأَنْصَارِ سِتَّۃٌ، فَقَالَ عُتْبَۃُ: لَا نُرِیدُ ہٰؤُلَائِ وَلٰکِنْ یُبَارِزُنَا مِنْ بَنِی عَمِّنَا مِنْ بَنِی عَبْدِ الْمُطَّلِبِ، فَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ((قُمْ یَا عَلِیُّ! وَقُمْ یَا حَمْزَۃُ! وَقُمْ یَا عُبَیْدَۃُ بْنَ الْحَارِثِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ!)) فَقَتَلَ اللّٰہُ تَعَالَی عُتْبَۃَ وَشَیْبَۃَ ابْنَیْ رَبِیعَۃَ وَالْوَلِیدَ بْنَ عُتْبَۃَ وَجُرِحَ عُبَیْدَۃُ، فَقَتَلْنَا مِنْہُمْ سَبْعِینَ وَأَسَرْنَا سَبْعِینَ، فَجَائَ رَجُلٌ مِنَ الْأَنْصَارِ قَصِیرٌ بِالْعَبَّاسِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ أَسِیرًا، فَقَالَ الْعَبَّاسُ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! إِنَّ ہٰذَا وَاللّٰہِ مَا أَسَرَنِی، لَقَدْ أَسَرَنِی رَجُلٌ أَجْلَحُ مِنْ أَحْسَنِ النَّاسِ وَجْہًا، عَلٰی فَرَسٍ أَبْلَقَ مَا أُرَاہُ فِی الْقَوْمِ، فَقَالَ الْأَنْصَارِیُّ: أَنَا أَسَرْتُہُ، یَا رَسُولَ اللّٰہِ! فَقَالَ: ((اسْکُتْ فَقَدْ أَیَّدَکَ اللّٰہُ تَعَالَی بِمَلَکٍ کَرِیمٍ۔)) فَقَالَ عَلِیٌّ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ: فَأَسَرْنَا وَأَسَرْنَا مِنْ بَنِی عَبْدِ الْمُطَّلِبِ الْعَبَّاسَ وعَقِیلًا وَنَوْفَلَ بْنَ الْحَارِثِ۔ (مسند احمد: ۹۴۸)
سیدناعلی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ہم جب ہجرت کر کے مدینہ منورہ آئے تو وہاں کی آب وہوا ہمیں راس نہ آئی اور ہمیں شدید بخار نے آلیا۔ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بدر کے متعلق حالات و واقعات معلوم کرتے رہتے تھے، جب ہمیں یہ اطلاع ملی کہ مشرکین مسلمانوں کے مقابلہ کے لیے نکل پڑے ہیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بدر کی طرف روانہ ہوئے، بدر ایک کنوئیں کا نام ہے مشرکین ہم سے پہلے وہاں پہنچ گئے، ہمیں وہاں دو مشرک ملے، ان میں سے ایک قریشی تھا اور دوسرا عقبہ بن ابی معیط کا غلام تھا، قریشی تو وہاں سے بھاگ نکلا البتہ عقبہ کے غلام کو ہم نے پکڑ لیا۔ہم اس سے پوچھنے لگے کہ قریشیوں کی تعداد کتنی ہے؟ وہ کہتا اللہ کی قسم وہ تعداد میں بہت زیادہ ہیں اور سازوسامان کے لحاظ سے بھی وہ مضبوط ہیں، اس نے جب یہ کہا تو مسلمانوں نے اسے مارنا شروع کر دیا۔ یہاں تک کہ وہ اسے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں لے آئے۔ آپ نے بھی اس سے دریافت کیا کہ ان کی تعداد کتنی ہے؟ تو اس نے پھر وہی کہا کہ اللہ کی قسم! ان کی تعداد بہت زیادہ ہے اور سازوسامان بھی ان کے پاس کافی ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پورا زور لگایا تاکہ وہ بتلادئے کہ ان کی تعداد کس قدر ہے؟ مگر اس نے کچھ نہ بتلایا۔ بعدازاں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس سے دریافت فرمایا کہ وہ روزانہ کتنے اونٹ ذبح کرتے ہیں؟ اس نے بتلایا کہ روزانہ دس اونٹ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ان کی تعداد ایک ہزار ہے ایک سو کے لگ بھگ افراد کے لیے ایک اونٹ ہوتا ہے۔ بعدازاں رات کو بوندا باندی ہو گئی ہم نے بارش سے بچاؤ کے لیے درختوں اور ڈھالوں کی پناہ لی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ساری رات اللہ سے دعائیں کرتے رہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کہہ رہے تھے یا اللہ ! اگر تو نے اس چھوٹی سی جماعت کوہلاک کر دیا تو زمین پر تیری عبادت نہ کی جائے گی۔ صبح صادق ہو ئی تو آپ نے آواز دی، لوگو! نماز کا وقت ہو گیا ہے۔ لوگ درختوں اور ڈھالوں کے نیچے سے نکل آئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہمیں دشمن کے خلاف لڑنے کی ترغیب دلائی، پھر آپ نے فرمایا کہ قریش کیجماعت اس ٹیڑھے سرخ پہاڑ کے نیچے ہو گی جب دشمن ہمارے قریب آئے اور ہم بھی ان کے بالمقابل صف آراء ہوئے تو ان میں سے ایک آدمی اپنے سرخ اونٹ پر سوار دشمن کی فوج میں چکر لگا رہا تھا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے علی رضی اللہ عنہ کو پکار کر فرمایا حمزہ رضی اللہ عنہ کومیری طرف بلاؤ وہ مشرکین کا سب سے قریبی رشتہ دار تھا، آپ نے پوچھا یہ سرخ اونٹ والا آدمی کون ہے؟ اور وہ ان سے کیا کہہ رہا ہے؟ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اگر ان لوگوں میں کوئی بھلامانس ان کو اچھی بات کہنے والا ہوا تو وہ یہی سرخ اونٹ والا ہی ہو گا۔حمزہ رضی اللہ عنہ آئے تو انہوں نے بتلایا کہ یہ عتبہ بن ربیعہ ہے جو انہیں قتال سے منع کر رہا ہے اور ان سے کہہ رہا ہے لوگو! میں ایسے لوگوں کو دیکھ رہا ہوں جو مرنے پر تلے ہوئے ہیں، اور تم ان تک نہیں پہنچ سکو گے۔ اسی میں تمہاری خیر ہے، لوگو! تم لڑائی سے پیچھے ہٹنے کی عار میرے سر پر باندھو، اور کہہ دوکہ عتبہ بن ربیعہ نے بزدلی دکھائی، تم جانتے ہو کہ میں تم سے زیادہ بزدل نہیں ہوں، ابو جہل نے اس کی باتیں سنیں تو کہا ارے تم ایسی باتیںکہہ رہے ہو؟ کوئی دوسرا کہتا تو میں اس سے کہتا جا کر اپنے باپ کی شرم گاہ کوکاٹ کھاؤ، تمہارے دل میں تو خوف بھر گیا ہے۔ تو عتبہ نے کہا ارے اپنی دبر کو زعفران سے رنگنے والے کیا تو مجھے عار دلاتا ہے ؟ آج تجھے پتہ چل جائے گا کہ ہم میں سے بزدل کون ہے؟ علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں چنانچہ عتبہ اس کا بھائی شیبہ اور اس کا بیٹا ولید قومی حمیت وغیرت کے جذبہ سے مقابلے میں نکلے اور عتبہ نے پکارا، کون آئے گا ہمارے مقابلہ میں؟ تو چھ انصاری اس کے جواب میں سامنے آئے۔ تو عتبہ نے کہا ہم ان سے لڑنا نہیں چاہتے، ہم تو اپنے عم زاد بنو عبدالمطلب کو مقابلے کی دعوت دیتے ہیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: علی رضی اللہ عنہ ! تم اٹھو، حمزہ رضی اللہ عنہ اٹھو اور عبیدہ بن حارث بن مطلب رضی اللہ عنہ تم اُٹھو، تو اللہ تعالیٰ نے ربیعہ کے دونوں بیٹوں عتبہ اور شیبہ کو اور ولید بن عتبہ کو قتل کر دیا اور مسلمانوں میں سے عبیدہ رضی اللہ عنہ زخمی ہو گئے۔ مسلمانوں نے ستر کا فروں کو قید اور ستر کو قتل کیا، ایک پست قد انصاری صحابی رضی اللہ عنہ عباس بن عبدالمطلب کو گرفتار کر لائے، تو عباس نے کہا اللہ کے رسول! صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ کی قسم مجھے اس نے نہیں بلکہ مجھے ایک ایسے آدمی نے گرفتار کیا ہے جس کے سر کے دونوں پہلوؤں پربال نہیں تھے۔ جو انتہائی حسین وجمیل تھا اور اس کے گھوڑے کی ٹانگیں رانوں تک سفید تھیں۔ وہ آدمی مجھے آپ لوگوں میں دکھائی نہیں دے رہا۔ تو انصاری رضی اللہ عنہ نے کہا اللہ کے رسول! اسے میں نے ہی گرفتار کیا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: خاموش رہو، اس سلسلہ میں اللہ نے اپنے ایک معزز فرشتے کے ذریعے تمہاری نصرت کی تھی۔ علی رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ ہم نے بہت سے کافروں کو اور بنو عبدالمطلب میں سے عباس، عقیل اور نوفل بن حارث کو گرفتار کیا تھا۔
Musnad Ahmad, Hadith(10695)