۔ (۱۰۷۱۱)۔ عَنْ قَتَادَۃَ عَنْ أَنَسٍ قَالَ: وَحُدِّثَ أَنَسُ بْنُ مَالِکٍ أَنَّ نَبِیَّ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم أَمَرَ بِبِضْعَۃٍ وَعِشْرِینَ رَجُلًا مِنْ صَنَادِیدِ قُرَیْشٍ، فَأُلْقُوا فِی طُوًی مِنْ أَطْوَائِ بَدْرٍ خَبِیثٍ مُخْبِثٍ، قَالَ: وَکَانَ إِذَا ظَہَرَ عَلٰی قَوْمٍ أَقَامَ بِالْعَرْصَۃِ ثَلَاثَ لَیَالٍ، قَالَ: فَلَمَّا ظَہَرَ عَلٰی بَدْرٍ أَقَامَ ثَلَاثَ لَیَالٍ، حَتّٰی إِذَا کَانَ الثَّالِثُ أَمَرَ بِرَاحِلَتِہِ فَشُدَّتْ بِرَحْلِہَا ثُمَّ مَشٰی، وَاتَّبَعَہُ أَصْحَابُہُ قَالُوا: فَمَا نَرَاہُ یَنْطَلِقُ إِلَّا لِیَقْضِیَ حَاجَتَہُ، قَالَ: حَتّٰی قَامَ عَلٰی شَفَۃِ الطُّوٰی، قَالَ: فَجَعَلَ یُنَادِیہِمْ بِأَسْمَائِہِمْ وَأَسْمَائِ آبَائِہِمْ: ((یَا فُلَانُ بْنَ فُلَانٍ! أَسَرَّکُمْ أَنَّکُمْ أَطَعْتُمُ اللّٰہَ وَرَسُولَہُ، ہَلْ وَجَدْتُمْ مَا وَعَدَکُمْ رَبُّکُمْ حَقًّا؟)) قَالَ عُمَرُ: یَا نَبِیَّ اللّٰہِ! مَا تُکَلِّمُ مِنْ أَجْسَادٍ لَا أَرْوَاحَ فِیہَا؟ قَالَ: ((وَالَّذِی نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِیَدِہِ، مَا أَنْتُمْ بِأَسْمَعَ لِمَا أَقُولُ مِنْہُمْ۔)) قَالَ قَتَادَۃُ: أَحْیَاہُمُ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ لَہُ حَتّٰی سَمِعُوا قَوْلَہُ تَوْبِیخًا وَتَصْغِیرًا وَنِقْمَۃً۔ (مسند احمد: ۱۲۴۹۸)
سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ان کو بیان کیا گیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بیس سے زائد قریشی سرداروں کے متعلق حکم دیا اور انہیں بدر کے کنوؤں میں سے ایک کنوئیں میں پھینک دیا گیا۔ وہ کنواں بڑا خبیث اور گندا تھا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا معمول یہ تھا کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کسی قوم پر فتح پاتے تو وہاں تین رات قیام فرماتے، اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب بدر میں فتح یاب ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے وہاں بھی تین رات قیام فرمایا، جب تیسرا دن ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی سواری کو تیار کرنے کا حکم فرمایا، پس آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم روانہ ہو ئے، صحابہ نے بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پیروی کی، صحابہ کہتے ہیں کہ ہم سب نے سمجھا کہ آپ اپنی کسی ضروری حاجت کے لیے تشریف لے جا رہے ہیں۔ چلتے چلتے آپ اس کنوئیں کے کنارے پر جا رکے اور ان مقتول کفار قریش کو ان کے ناموں اور ان کے آباء کے ناموں کا ذکر کر کے ان کو پکارا اور یوں فرمایا: اے فلاں بن فلاں! کیا اب تمہیںیہ بات اچھی لگتی ہے کہ تم اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرتے؟ تمہارے رب نے تمہارے ساتھ جو وعدہ کیا تھا، کیا تم نے اسے سچا پالیا ہے؟ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: اللہ کے نبی! کیا آپ ایسے اجسام سے ہم کلام ہو رہے ہیں، جن میں روحیں ہی نہیں ہیں؟ قتادہ کا بیان ہے کہ اللہ تعالیٰ نے زجروتوبیخ، رسوائی اور اظہار ناراضگی کے لیے ان کفار کو زندہ کر دیا تھا۔
Musnad Ahmad, Hadith(10711)