۔ (۱۰۷۲۳)۔ عَنْ عَطَائِ بْنِ السَّائِبِ عَنْ اَبِیْہِ عَنْ عَلِیٍّ رضی اللہ عنہ اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لَمَّا زَوَّجَہُ فَاطِمَۃَ، بَعَثَ مَعَہَ بِخَمِیْلَۃٍ وَوِسَادَۃٍ مِنْ اَدَمٍ حَشْوُھَا لِیْفٌ (وَفِیْ لَفْظٍ: لَیْفُ الْاِذْخَرِ) وَرَحْیَیْنِ وَسِقَائً وَ جَرَّتَیْنِ، فَقَالَ عَلِیٌّ لِفَاطِمَۃَ ذَاتَ یَوْمٍ: وَاللّٰہِ! لَقَدْ سَنَوْتُ حَتّٰی لَقَدِ اشْتَکَیْتُ صَدْرِیْ، قَالَ: وَقَدْ جَائَ اللّٰہُ اَبَاکَ بِسَبْیٍ، فَاذْھَبِیْ فَاسْتَخْدِمِیْہِ، فَقَالَتْ: وَاَنَا وَاللّٰہِ! قَدْ طَحَنْتُ حَتّٰی مَجَلَتْ یَدِیْ، فَاَتَتِ النَّبِیَّ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فَقَالَ: ((مَا جَائَ بِکِ اَیْ بُنَیَّۃَ؟)) قَالَتْ: جِئْتُ لِاُسَلِّمَ عَلَیْکَ، وَاسْتَحْیَتْ اَنْ تَسْاَلَہُ وَرَجَعَتْ، فَقَالَ: مَا فَعَلْتِ؟ قَالَتْ: اسْتَحْیَیْتُ اَنْ اَسْاَلَہُ، فَاَتَیْنَا جَمِیْعاً، فَقَال عَلِیٌّ: یَا رَسُوْلُ اللّٰہِ، وَاللّٰہِ! لَقَدْ سَنَوْتُ حَتَّی اشْتَکَیْتُ صَدْرِیْ، وَقَالَتْ فَاطِمَۃُ: قَدْ طَحَنْتُ حَتّٰی مَجَلَتْ یَدَایَ وَقد جَائَکَ اللّٰہُ بِسَبْیٍ وَسِعَۃٍ فَاَخْدِمْنَا، فَقَالَ
رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم : ((وَاللّٰہِ! لَا اُعْطِیْکُمَا وَاَدَعُ اَھْلَ الصُّفَّۃَ تَطْوِیْ بُطُوْنُہُمْ لَا اَجِدُ مَا اُنْفِقُ عَلَیْہِمْ، وَلٰکِنِّیْ اَبِیْعُہُمْ وَاُنْفِقُ عَلَیْہِمْ اَثْمَانَہُمْ۔)) فَرَجَعَا فَاَتَاھُمَا النَّبِیُّ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وَقَدْ دَخَلَا فِیْ قَطِیْفَتِہِمَا اِذَا غَطَّتْ رُئُ وْسَہُمَا تَکَشَّفَتْ اَقْدَامُھُمَا، وَإِذَا غَطَّیَا اَقْدَامَہَمَا تَکَشَّفَتْ رُئُ ْوسُہُمَا فَثَارَا، فَقَالَ: ((مَکَانَکُمَا۔)) ثُمَّ قَالَ: ((اَلَا اُخْبِرُ کُمَا بِخَیْرِ مِمَّا سَاَلْتُمَانِیْ؟)) قَالَا: بَلٰی! فَقَالَ: ((کَلِمَاتٍ عَلَّمَنِیْہِنَّ جِبْرِیْلُ علیہ السلام ، فَقَالَ: تُسَبِّحَانِ فِیْ دُبُرِ کُلِّ صَلَاۃٍ عَشْرًا، وَتَحْمَدَانِ عَشْرًا، وَتُکَبِّرَانِ عَشْرًا، وَإِذَا اٰوَیْتُمَا اِلٰی فِرَاشِکُمَا فَسَبِّحَا ثَلَاثًا وَثَلَاثِیْنَ، وَاحْمَدَا ثَلَاثًا وَثَلَاثِیْنَ، وَکَبِّرَا اَرْبَعًا وَثَلَاثِیْنَ۔)) قَال: فَوَ اللّٰہِ! مَا تَرَکْتُہُنَّ مُنْذُ عَلَّمَنِیْہِنَّ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ، قَالَ: فَقَالَ لَہُ ابْنُ الْکَوَائِ: وَلَا لَیْلَۃَ صِفِّیْنَ، فَقَالَ قَاتَلَکُمُ اللّٰہُ، یَا اَھْلَ الْعَرَاقِ! نَعَمْ، وَلَا لَیْلَۃَ صِفِّیْنَ۔ (مسند احمد: ۸۳۸)
سیّدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سیّدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کا علی رضی اللہ عنہ سے نکاح کیا تو آپ نے ان کے ہمراہ ایک اونی چادر، چمڑے کا ایک تکیہ، جس میں کھجور کے درخت کی چھال بھری ہوئی تھی، دو چکیاں، ایک مشک اور دو مٹکے بھیجے، ایک دن سیّدنا علی رضی اللہ عنہ نے سیّدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا سے کہا کہ باہر سے پانی لالا کر اب تو میرا سینہ دکھنے لگا ہے، اللہ تعالیٰ نے آپ کے والد کے پاس کچھ قیدی بھیج دئیے ہیں، تم جا کر ان سے ایک خادم طلب کر لو، انہوں نے کہا اللہ کی قسم! میرا بھی اب تو یہ حال ہو چکا ہے کہ آٹا پیسنے کے لیے چکی چلا چلا کر میرے ہاتھوں پر گٹے پڑ گئے ہیںیعنی ہاتھ بہت سخت ہو گئے ہیں۔ چنانچہ سیّدہ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں گئیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دریافت کیا: بیٹی! کیسے آنا ہوا؟ انہوں نے کہا میں تو محض سلام کہنے کی غرض سے آئی ہوں، اور کوئی چیز طلب کرنے سے جھجک گئیں۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے پوچھا کہ کیا بنا؟ انہوں نے بتلایا:میں تو شرم کے مارے آپ سے کچھ نہیں مانگ سکی، پھر ہم دونوں آپ کی خدمت میں گئے، اس بار سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے کہا: اے اللہ کے رسول! اللہ کی قسم! باہر سے پانی لالا کر میرا سینہ دکھنے لگا ہے، اور سیّدہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ چکی چلاچلا کر میرے ہاتھوں پر گٹے پڑ گئے ہیں، اب اللہ نے آپ کے پاس قیدی بھیجے ہیں اور آپ کو مالی طور پر خوش حال کر دیا ہے، پس آپ ہمیں ایک خادم عنایت کر دیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اللہ کی قسم! میں تمہیں خادم نہیں دے سکتا، جب کہ اہلِ صفہ کا حال یہ ہے کہ بھوک کے مارے ان کے پیٹ بل کھاتے ہیں اور میرے پاس اس قدر گنجائش نہیں کہ ان پر کچھ خرچ کر سکوں، یہ جو قیدی آئے ہیں، میں انہیں فروخت کر کے ان سے حاصل ہونے والی رقم اصحاب صفہ پر خرچ کروں گا۔ یہ سن کر وہ دونوں لوٹ آئے، بعد میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کے ہاں ایسے وقت تشریف لے گئے، جب وہ اپنی چادر میں داخل ہو چکے تھے، اور اس چادر کا بھییہ حال تھا کہ وہ چادر ان کے سروں کو ڈھانپتی تو ان کے پاؤں ننگے ہو جاتے اور جب وہ دونوں اپنے کے پاؤں ڈھانپتے تو ان کے سر ننگے رہ جاتے، وہ اٹھ کر بیٹھنے لگے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: کوئی بات نہیں، تم اپنی جگہ پرہی رہو۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: آپ لوگوں نے مجھ سے جو کچھ طلب کیا تھا، اب کیا میں تمہیں اس سے بہتر بات نہ بتلاؤں؟ دونوں نے کہا: ضرور، ضرور، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: وہ چند کلمات ہیں جو جبریل علیہ السلام نے مجھے سکھائے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: تم ہر نماز کے بعد دس مرتبہ سُبْحانَ اللّٰہ، دس مرتبہ اَلْحَمْدُ لِلّٰہ، اور دس مرتبہ اَللّٰہُ اَکْبَر کہہ لیا کرو اور جب تم سونے کے لیے بستر پر آؤ تو ۳۳ مرتبہ سُبْحَانَ اللّٰہ، ۳۳ مرتبہ اَلْحَمْدُ لِلّٰہ اور ۳۴ مرتبہ اَللّٰہُ اَکْبَر کہہ لیا کرو۔ سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: جب سے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے یہ کلمات سکھائے ہیں، میں نے انہیں ترک نہیں کیا۔ یہ سن کر عبداللہ بن کواء نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے کہا: کیا آپ نے جنگ صفین والی رات کو بھی انہیں ترک نہیں کیا تھا؟ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے کہا: اے اہل ِ عراق! اللہ تمہیں ہلاک کرے، ہاں صفین کی شب کو بھی میںنے اس عمل کو ترک نہیں کیا۔
Musnad Ahmad, Hadith(10723)