Blog
Books



۔ (۱۰۷۲۹)۔ حَدَّثَنَا أَبُو إِسْحَاقَ أَنَّ الْبَرَاء َ بْنَ عَازِبٍ قَالَ: جَعَلَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم عَلَی الرُّمَاۃِیَوْمَ أُحُدٍ وَکَانُوا خَمْسِینَ رَجُلًا عَبْدَ اللّٰہِ بْنَ جُبَیْرٍ، قَالَ: وَوَضَعَہُمْ مَوْضِعًا، وَقَالَ: ((إِنْ رَأَیْتُمُونَا تَخْطَفُنَا الطَّیْرُ فَلَا تَبْرَحُوا حَتّٰی أُرْسِلَ إِلَیْکُمْ، وَإِنْ رَأَیْتُمُونَا ظَہَرْنَا عَلَی الْعَدُوِّ وَأَوْطَأْنَاہُمْ فَلَا تَبْرَحُوا حَتّٰی أُرْسِلَ إِلَیْکُمْ۔)) قَالَ: فَہَزَمُوہُمْ، قَالَ: فَأَنَا وَاللّٰہِ! رَأَیْتُ النِّسَائَ یَشْتَدِدْنَ عَلَی الْجَبَلِ، وَقَدْ بَدَتْ سُوْقُہُنَّ وَخَلَاخِلُہُنَّ رَافِعَاتٍ ثِیَابَہُنَّ، فَقَالَ أَصْحَابُ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ جُبَیْرٍ: الْغَنِیمَۃَ أَیْ قَوْمُ الْغَنِیمَۃَ، ظَہَرَ أَصْحَابُکُمْ فَمَا تَنْظُرُونَ؟ قَالَ عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ جُبَیْرٍ: أَنَسِیتُمْ، مَا قَالَ لَکُمْ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالُوا: إِنَّا وَاللّٰہِ لَنَأْتِیَنَّ النَّاسَ فَلَنُصِیبَنَّ مِنَ الْغَنِیمَۃِ، فَلَمَّا أَتَوْہُمْ صُرِفَتْ وُجُوہُہُمْ، فَأَقْبَلُوا مُنْہَزِمِینَ، فَذٰلِکَ الَّذِییَدْعُوہُمُ الرَّسُولُ فِی أُخْرٰاہُمْ، فَلَمْ یَبْقَ مَعَ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم غَیْرُ اثْنَیْ عَشَرَ رَجُلًا، فَأَصَابُوا مِنَّا سَبْعِینَ رَجُلًا، وَکَانَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَأَصْحَابُہُ أَصَابَ مِنْ الْمُشْرِکِینَیَوْمَ بَدرٍ أَرْبَعِینَ وَمِائَۃً، سَبْعِینَ أَسِیرًا وَسَبْعِینَ قَتِیلًا، فَقَالَ أَبُو سُفْیَانَ: أَفِی الْقَوْمِ مُحَمَّدٌ؟ أَ فِی الْقَوْمِ مُحَمَّدٌ؟ أَ فِی الْقَوْمِ مُحَمَّدٌ؟ ثَلَاثًا، فَنَہَاہُمْ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم أَنْ یُجِیبُوہُ، ثُمَّ قَالَ: أَفِی الْقَوْمِ ابْنُ أَبِی قُحَافَۃَ؟ أَ فِی الْقَوْمِ ابْنُ أَبِی قُحَافَۃَ؟ أَ فِی الْقَوْمِ ابْنُ الْخَطَّابِ؟ أَ فِی الْقَوْمِ ابْنُ الْخَطَّابِ؟ ثُمَّ أَقْبَلَ عَلٰی أَصْحَابِہِ، فَقَالَ: أَمَّا ہٰؤُلَائِ فَقَدْ قُتِلُوا وَقَدْ کُفِیتُمُوہُمْ، فَمَا مَلَکَ عُمَرُ نَفْسَہُ أَنْ قَالَ: کَذَبْتَ وَاللّٰہِ، یَا عَدُوَّ اللّٰہِ! إِنَّ الَّذِینَ عَدَدْتَ لَأَحْیَائٌ کُلُّہُمْ، وَقَدْ بَقِیَ لَکَ مَا یَسُوئُکَ، فَقَالَ: یَوْمٌ بِیَوْمِ بَدْرٍ، وَالْحَرْبُ سِجَالٌ، إِنَّکُمْ سَتَجِدُونَ فِی الْقَوْمِ مُثْلَۃً لَمْ آمُرْ بِہَا وَلَمْ تَسُؤْنِی، ثُمَّ أَخَذَ یَرْتَجِزُ: اعْلُ ہُبَلُ، اعْلُ ہُبَلُ، فَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((أَلَا تُجِیبُونَہُ؟)) قَالُوا: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! وَمَا نَقُولُ؟ قَالَ: ((قُولُوا: اَللَّہُ أَعْلٰی وَأَجَلُّ۔)) قَالَ: إِنَّ الْعُزّٰی لَنَا وَلَا عُزّٰی لَکُمْ، فَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((أَلَا تُجِیبُونَہُ۔)) قَالُوا: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! وَمَا نَقُولُ؟ قَالَ: ((قُولُوا: اللّٰہُ مَوْلَانَا وَلَا مَوْلٰی لَکُمْ۔))۔ (مسند احمد: ۱۸۷۹۴)
سیدنا براء بن عازب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ غزوۂ احد کے روز رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے پچاس تیر اندازوں پر عبداللہ بن جبیر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو امیر مقرر فرمایا اور انہیں ایک مقام پر ٹھہرایا اور فرمایا: اگر تم دیکھو کہ پرندے ہماری لاشوں کو آکر کھا رہے ہیں تم تب بھییہاں سے نہ ہٹنا، تاآنکہ میں خود تمہارے پاس پیغام بھیجوں اور اگر تم دیکھو کہ ہم دشمن پر غالب آ چکے اور اسے روند چکے ہیں تم تب بھییہاں سے اِدھر اُدھر نہ جانا، جب تک کہ میں خود تمہارے پاس پیغام نہ بھیج دوں۔ سیدنا براء ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں:مسلمانوں نے کفار کو شکست سے دو چار کیا۔ اللہ کی قسم! میں نے عورتوں کو پہاڑ کے اوپر دوڑتے ہوئے یعنی گھبراہٹ میں تیز تیز چلتے دیکھا ان کی حالت یہ تھی کہ ان کی پنڈلیاں اور پازیبیں دکھائی دے رہی تھیں اور انہوں نے اپنے کپڑوں کو اٹھایا ہوا تھا۔ یہ صورت حال دیکھ کر سیدنا عبداللہ بن جبیر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے تیر انداز ساتھیوں نے کہا: لوگو! چلو مالِ غنیمت اکٹھا کریں، مسلمانوں کو فتح حاصل ہو چکی ہے، اب تم کس چیز کے منتظر ہو؟ سیدنا عبداللہ بن جبیر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے ان سے بہت کہا کہ اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے تم سے جو فرمایا تھا، کیا تم اسے بھول گئے ہو؟ یہ لوگ جب میدان میں پہنچے، صورت حالات بدل گئی اور شکست خوردہ ہو کر واپس ہوئے۔ یہی وہ وقت تھا جب رسول ان کو ان کے پیچھے سے آوازیں دے دے کر بلا رہے تھے اور اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ہمراہ محض بارہ آدمی رہ گئے تھے اور کفار نے ہمارے ستر آدمیوں کو قتل کیا تھا، جب کہ اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اور صحابہ کرام نے بدر کے دن ستر کافر وں کو قتل اور ستر کافروں کو قیدی بنایا تھا، لڑائی کے بعد ابو سفیان نے پکار کر دریافت کیا: کیا تمہارے اندر محمد ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم موجود ہیں؟ کیا تمہارے اندر محمد ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم موجود ہیں؟ کیا تمہارے اندر محمد ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم موجود ہیں؟ اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مسلمانوں کو اس کی بات کا جواب دینے سے منع فرما دیا۔ اس کے بعد اس نے پکار کر پوچھا کیا تمہارے ابن ابی قحافہ یعنی ابوبکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ موجود ہیں؟ کیا تمہارے اندر ابو قحافہ کے بیٹے موجود ہیں؟ کیا تمہارے اندر ابن خطاب ہیں؟ کیا تمہارے اندر خطاب کا بیٹا ہے؟ پھر اس نے اپنے ساتھیوں کی طرف دیکھ کر خوشی سے کہا یہ سب لوگ مارے جا چکے ہیں اور ان کی بابت تمہارا کام مکمل ہو چکا ہے۔ سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ اس کییہ باتیں سن کر کنٹرول نہ کر سکے اور فرمایا: اے اللہ کے دشمن! تو جھوٹ کہہ رہا ہے، تو نے جن جن لوگوں کے نام لیے ہیں وہ سب زندہ ہیں، اور تیرے لیے بری خبر باقی ہے۔ ابو سفیان نے کہا: آج کا دن، بدر کا بدلہ ہے، اور لڑائی میں ایسا ہوتا رہتا ہے، کبھی کوئی غالب اورکبھی کوئی، تم دیکھوگے کہ تمہارے مسلمانوں کے مقتولین کا مُثلہ کیا گیا ہے، مگر میں نے کسی کو ایسا کرنے کانہیں کہا۔ مگر مجھے یہ کام بُرا بھی نہیں لگا، پھر وہ خوشی سے اس قسم کے رجز یہ کلمات کہنے لگا۔ اے ہُبل! تو سر بلند ہو، اے ہبل! تو سربلند ہو، تب رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: کیا تم اس کی باتوں کا جواب نہ دو گے؟ صحابہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے دریافت کیا، اللہ کے رسول! اس کے جواب میں ہم کیا کہیں؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تم یوں کہو اَللَّہُ أَعْلٰی وَأَجَلُّ (اللہ ہی بلند وبالا اور بزرگی والا ہے)۔ ابو سفیان نے کہا: ہمارے پاس تو ایک عُزی ہے، جب کہ تمہارا کوئی عزی نہیں۔ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تم اسے اس کی بات کا جواب کیوں نہیں دیتے ہو؟ صحابہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے عرض کیا: اللہ کے رسول! ہم کیا کہیں؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا تم یوں کہو: اَللّٰہُ مَوْلَانَا وَلَا مَوْلٰی لَکُمْ (ہمارا مدد گار تو اللہ ہے، تمہارا کوئی مدد گار نہیں)۔
Musnad Ahmad, Hadith(10729)
Background
Arabic

Urdu

English