۔ (۱۰۷۳۰)۔ عَنْ عُبَیْدِ اللّٰہِ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّہُ قَالَ: مَا نَصَرَ اللّٰہُ تَبَارَکَ وَتَعَالٰی فِی مَوْطِنٍ کَمَا نَصَرَ یَوْمَ أُحُدٍ، قَالَ: فَأَنْکَرْنَا ذٰلِکَ، فَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: بَیْنِی وَبَیْنَ مَنْ أَنْکَرَ ذٰلِکَ کِتَابُ اللّٰہِ تَبَارَکَ وَتَعَالَی إِنَّ اللّٰہَ عَزَّ وَجَلَّ یَقُولُ فِییَوْمِ أُحُد: {وَلَقَدْ صَدَقَکُمْ اللّٰہُ وَعْدَہُ إِذْ تَحُسُّونَہُمْ بِإِذْنِہِ } یَقُولُ ابْنُ عَبَّاسٍ: وَالْحَسُّ الْقَتْلُ، {حَتّٰی إِذَا فَشِلْتُمْ إِلٰی قَوْلِہِ وَلَقَدْ عَفَا عَنْکُمْ وَاللّٰہُ ذُو فَضْلٍ عَلَی الْمُؤْمِنِینَ} وَإِنَّمَا عَنٰی بِہٰذَا الرُّمَاۃَ، وَذٰلِکَ أَنَّ النَّبِیَّ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم أَقَامَہُمْ فِی مَوْضِعٍ، ثُمَّ قَالَ: ((احْمُوا ظُہُورَنَا فَإِنْ رَأَیْتُمُونَا نُقْتَلُ فَلَا تَنْصُرُونَا، وَإِنْ رَأَیْتُمُونَا قَدْ غَنِمْنَا فَلَا تَشْرَکُونَا۔)) فَلَمَّا غَنِمَ النَّبِیُّ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وَأَبَاحُوا عَسْکَرَ الْمُشْرِکِینَ أَکَبَّ الرُّمَاۃُ جَمِیعًا فَدَخَلُوا فِی الْعَسْکَرِ یَنْہَبُونَ، وَقَدِ الْتَقَتْ صُفُوفُ أَصْحَابِ رَسُولِ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فَہُمْ کَذَا وَشَبَّکَ بَیْنَ أَصَابِعِ یَدَیْہِ، وَالْتَبَسُوا فَلَمَّا أَخَلَّ الرُّمَاۃُ تِلْکَ الْخَلَّۃَ الَّتِی کَانُوا فِیہَا دَخَلَتِ الْخَیْلُ مِنْ ذٰلِکَ الْمَوْضِعِ عَلٰی أَصْحَابِ النَّبِیِّ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
فَضَرَبَ بَعْضُہُمْ بَعْضًا وَالْتَبَسُوا وَقُتِلَ مِنَ الْمُسْلِمِینَ نَاسٌ کَثِیرٌ، وَقَدْ کَانَ لِرَسُولِ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وَأَصْحَابِہِ أَوَّلُ النَّہَارِ حَتّٰی قُتِلَ مِنْ أَصْحَابِ لِوَائِ الْمُشْرِکِینَ سَبْعَۃٌ أَوْ تِسْعَۃٌ، وَجَالَ الْمُسْلِمُونَ جَوْلَۃً نَحْوَ الْجَبَلِ وَلَمْ یَبْلُغُوا حَیْثُیَقُولُ النَّاسُ الْغَارَ، إِنَّمَا کَانُوا تَحْتَ الْمِہْرَاسِ وَصَاحَ الشَّیْطَانُ: قُتِلَ مُحَمَّدٌ، فَلَمْ یُشَکَّ فِیہِ أَنَّہُ حَقٌّ، فَمَا زِلْنَا کَذٰلِکَ مَا نَشُکُّ أَنَّہُ قَدْ قُتِلَ حَتّٰی طَلَعَ رَسُولُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بَیْنَ السَّعْدَیْنِ نَعْرِفُہُ بِتَکَفُّئِہِ إِذَا مَشٰی، قَالَ: فَفَرِحْنَا حَتّٰی کَأَنَّہُ لَمْ یُصِبْنَا مَا أَصَابَنَا، قَالَ: فَرَقِیَ نَحْوَنَا وَہُوَ یَقُولُ: ((اشْتَدَّ غَضَبُ اللّٰہِ عَلٰی قَوْمٍ دَمَّوْا وَجْہَ رَسُولِہِ۔)) قَالَ: وَیَقُولُ مَرَّۃً أُخْرٰی: اللّٰہُمَّ إِنَّہُ لَیْسَ لَہُمْ أَنْ یَعْلُونَا حَتَّی انْتَہَی إِلَیْنَا، فَمَکَثَ سَاعَۃً فَإِذَا أَبُو سُفْیَانَیَصِیحُ فِی أَسْفَلِ الْجَبَلِ: اعْلُ ہُبَلُ، مَرَّتَیْنِیَعْنِی آلِہَتَہُ، أَیْنَ ابْنُ أَبِیکَبْشَۃَ؟ أَیْنَ ابْنُ أَبِی قُحَافَۃَ؟ أَیْنَ ابْنُ الْخَطَّابِ؟ فَقَالَ عُمَرُ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! أَلَا أُجِیبُہُ؟ قَالَ: ((بَلٰی۔)) فَلَمَّا قَالَ: اعْلُ ہُبَلُ، قَالَ عُمَرُ: اللّٰہُ أَعْلَی وَأَجَلُّ، قَالَ: فَقَالَ أَبُو سُفْیَانَ: یَا ابْنَ الْخَطَّابِ! إِنَّہُ قَدْ أَنْعَمَتْ عَیْنُہَا فَعَادِ عَنْہَا أَوْ فَعَالِ عَنْہَا، فَقَالَ أَیْنَ ابْنُ أَبِی کَبْشَۃَ؟ أَیْنَ ابْنُ أَبِی قُحَافَۃَ؟ أَیْنَ ابْنُ الْخَطَّابِ؟ فَقَالَ عُمَرُ: ہٰذَا رَسُولُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وَہٰذَا أَبُوبَکْرٍ، وَہَا أَنَا ذَا عُمَرُ، قَالَ: فَقَالَ أَبُو سُفْیَانَ: یَوْمٌ بِیَوْمِ بَدْرٍ، الْأَیَّامُ دُوَلٌ، وَإِنَّ الْحَرْبَ سِجَالٌ، قَالَ: فَقَالَ عُمَرُ:لَا سَوَائً قَتْلَانَا فِی الْجَنَّۃِ وَقَتْلَاکُمْ فِی النَّارِ، قَالَ: إِنَّکُمْ لَتَزْعُمُونَ ذٰلِکَ لَقَدْ خِبْنَا إِذَنْ وَخَسِرْنَا، ثُمَّ قَالَ أَبُو سُفْیَانَ: أَمَا إِنَّکُمْ سَوْفَ تَجِدُونَ فِی قَتْلَاکُمْ مُثْلًا، وَلَمْ یَکُنْ ذَاکَ عَنْ رَأْیِ سَرَاتِنَا، قَالَ: ثُمَّ أَدْرَکَتْہُ حَمِیَّۃُ الْجَاہِلِیَّۃِ، قَالَ: فَقَالَ: أَمَا إِنَّہُ قَدْ کَانَ ذَاکَ وَلَمْ نَکْرَہُّ۔ (مسند احمد: ۲۶۰۹)
سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: اللہ تعالیٰ نے جیسے احد کے موقع پر مسلمانوں کی مدد کی، ایسی کسی بھی موقع پر نہیں کی، عبیداللہ کہتے ہیں: سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ کییہ بات سن کر ہم سب کو تعجب ہوا۔ انھوں نے کہا: جو لوگ اس بات کے انکاری ہیں ان کے اور میرے درمیان اللہ کی کتاب فیصلہ کرے گی۔ اللہ تعالیٰ نے احد والے دن کے متعلق فرمایا ہے:{وَلَقَدْ صَدَقَکُمْ اللّٰہُ وَعْدَہُ إِذْ تَحُسُّونَہُمْ بِإِذْنِہِ} … اللہ نے تمہارے ساتھ کیا ہوا وعدہ پورا کیا تم ان کافروں کو قتل کر رہے تھے۔ یہاں الحسّ سے مراد قتل کرنا ہے۔ مزید فرمایا: {حَتّٰی اِذَا فَشِلْتُمْ وَ تَنَازَعْتُمْ فِی الْاَمْرِ وَعَصَیْتُمْ مِّنْ بَعْدِ مَآ اَرٰیکُمْ مَّا تُحِبُّوْنَ مِنْکُمْ مَّنْ یُّرِیْدُ الدُّنْیَا وَمِنْکُمْ مَّنْ یُّرِیْدُ الْاٰخِرَۃَ ثُمَّ صَرَفَکُمْ عَنْھُمْ لِیَبْتَلِیَکُمْ وَلَقَدْ عَفَا عَنْکُمْ وَاللّٰہُ ذُوْ فَضْلٍ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ۔}… مگر جب تم نے کمزوری دکھائی اور اپنے کام میں باہم اختلاف کیا، اور جونہی کہ وہ چیز اللہ نے تمہیں دکھائی جس کی محبت میں تم گرفتار تھے (یعنی مالِ غنیمت اور دشمن کی شکست)تم اپنے سردار کے حکم کی خلاف ورزی کر بیٹھے، اس لیے کہ تم میں سے کچھ لوگ دنیا کے طالب تھے اور کچھ آخرت کی خواہش رکھتے تھے، تب اللہ نے تمہیں کافروں کے مقابلہ میں پسپا کر دیا تاکہ تمہاری آزمائش کرے۔ اور حق یہ ہے کہ اللہ نے پھر بھی تمہیں معاف ہی کر دیا کیونکہ مومنوں پر اللہ بڑی نظر عنایت رکھتا ہے۔ اس سے وہ تیر انداز مراد ہیں جنہیں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک مقام پر متعین کیا تھا، اور فرمایا تھا کہ تم ادھر سے یعنی ہماری پشت کی جانب سے ہماری حفاظت کرنا، اگر تم دیکھو کہ ہم مارے جا رہے ہیں تب بھی تم ہماری مدد کو نہ آنا، اگر تم دیکھو کہ ہم غنیمتیں جمع کر رہے ہیں تب بھی تم ہمارے ساتھ شریک نہ ہونا۔ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم غنیمتیں جمع کرنے لگے اور انہوں نے مشرکین کے لشکر کو شکست سے دو چار کیا تم تمام تیر انداز اُدھر امڈ آئے اور لشکر میں شامل ہو کر لوٹ مار کرنے لگے، اصحاب رسول کی صفیں آپس میں اس طرح گڈ مڈ ہو گئیں اور ساتھ ہی ابن عباس رضی اللہ عنہ نے ایک ہاتھ کی انگلیوں کو دوسرے ہاتھ کی انگلیوں میں داخل کر کے دکھایا، جب ان تیر اندازوں نے اس مقررہ مقام کو غیر محفوظ چھوڑ دیا جہاں انہیں متعین کیا گیا تھا تو دشمنوں کا لشکر ادھر ہی سے اصحاب نبی پر حملہ آور ہو گیا۔ انہوں نے ایک دوسرے کو مارا اور گتھم گتھا ہو گئے اوربہت سے مسلمان شہید ہو گئے۔ دن کے ابتدائی حصہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور صحابہ کرام کا پلہ بھاری رہا، یہاں تک کہ مشرکین کے سات یا نو جھنڈا بردار قتل ہوئے اور مسلمان پہاڑ کی جانب بڑھتے گئے، وہ اس غار تک نہیں پہنچے تھے جس کے متعلق لوگ بیان کرتے ہیں کہ مسلمان غار تک پہنچ گئے تھے بلکہ وہ مہر اس نامی چشمہ تک پہنچے تھے جس کے قریب ہی سیدنا حمزہ رضی اللہ عنہ کو دفن کیا گیا تھا۔اور شیطان نے زور دار آواز سے چیخ کر کہا تھا: محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قتل ہو گئے۔ اس بات کے حق ہونے میں کسی کو شک بھی نہ گزرا، ہمیں بھی اس بات کا پورا یقین ہو چکا تھا، یہاں تک کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سعدین کے درمیان سے نظر آئے۔ ہم آپ کو آپ کے چلنے کے انداز سے پہچان لیتے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم چلتے وقت سامنے کی طرف تھوڑا سا جھک کر چلتے تھے، صحابہ کہتے ہیں: آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھ کر ہمیں اس قدر خوشی ہوئی گویا کہ ہمیں کوئی دکھ پہنچا ہی نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پہاڑ کے اوپر ہماری طرف چڑھ آئے اور اس وقت آپ یوں کہہ رہے تھے: ان لوگوں پر اللہ کا سخت غضب ہو، جنہوں نے اس کے رسول کے چہرے کو خون آلود کیا۔ اور کبھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یوں کہا: یہ لوگ کبھی بھی ہم پر غالب نہیں ہو سکتے۔ آپ اسی طرح کے کلمات کہتے کہتے ہمارے پاس آن پہنچے۔ تھوڑی دیر گزری تھی کہ پہاڑ کے نیچے سے ابو سفیان نے زور سے چیخ کر دو مرتبہ کہا، اے ہُبُل، تو سربلند ہو۔ ابن ابی کبشہ کہاں ہے؟(اس سے اس کی مراد نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تھے) ابو قحافہ کا بیٹا ابوبکر کہاں ہے؟ خطاب کا بیٹا عمر کہاں ہے؟ اس کی باتیں سن کر عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا :اے اللہ کے رسول! کیا میں اس کی باتوں کا جواب نہ دوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ضرور دو۔ ابو سفیان نے جب کہا کہ اے ہبل تو سر بلند ہو۔ تو اس کے جواب میں سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: اللّٰہُ أَعْلٰی وَأَجَلُّ (صرف اللہ ہی سب سے بلند اور بزرگ ترین ہے۔) ابو سفیان نے کہا: اے ابن خطاب! ہبل کی بات پوری ہو چکی ہے۔ اب تم اس کے ذکر کو چھوڑو، ابو سفیان نے کہا تھا: ابو کبشہ کا بیٹا محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کہاں ہے؟ ابو قحافہ کا بیٹا کہاں ہے؟ اور خطاب کا بیٹا کہاں ہے؟ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: یہ ہیں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ، یہ ہیں ابو بکر رضی اللہ عنہ اور یہ میں ہوں عمر، ابو سفیان نے کہا: آج کا دن بدر کے دن کا بدلہ ہے، یہ ایام پانی کے ڈول کی مانند ہوتے ہیں کبھی کوئی غالب آتا ہے اور کوئی مغلوب اور لڑائی میں باریاں ہوتی ہیں، غالب ہونے والے کبھی مغلوب اور مغلوب ہونے والے کبھی غالب آجاتے ہیں۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: نہیں، برابری نہیں ہے، ہمارے مقتول تو جنت میں جائیں گے اور تمہارے مقتول جہنمی ہیں۔ ابو سفیان بولا: یہ تو تمہارا خیال ہے، اگر بات ایسی ہی ہو تو ہم سراسر ناکام اور خسارہ پانے والے ہیں۔ پھر ابو سفیان نے کہا: اے عمر! تم دیکھو گے کہ تمہارے مقتولین کا مثلہ کیا گیا ہے۔ مگر یہ ہمارے لیڈروں کا فیصلہ قطعاً نہ تھا، یہ بات کرنے کے ساتھ ہی اسے جاہلی حمیتنے آن لیا اور کہنے لگا: اگر چہ بات ایسے ہی ہے کہ یہ ہمارے لیڈروں کا فیصلہ نہ تھا، تاہم ہم اس پر خوش ہیں اور اسے ناپسند نہیں کرتے۔
Musnad Ahmad, Hadith(10730)