۔ (۱۰۷۳۱)۔ عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ أَنَّ النِّسَائَ کُنَّ یَوْمَ أُحُدٍ خَلْفَ الْمُسْلِمِینَیُجْہِزْنَ عَلٰی جَرْحٰی الْمُشْرِکِینَ، فَلَوْ حَلَفْتُ یَوْمَئِذٍ رَجَوْتُ أَنْ أَبَرَّ إِنَّہُ لَیْسَ أَحَدٌ مِنَّا یُرِیدُ الدُّنْیَا، حَتَّی أَنْزَلَ اللّٰہُ عَزَّوَجَلَّ: {مِنْکُمْ مَنْ یُرِیدُ الدُّنْیَا وَمِنْکُمْ مَنْ یُرِیدُ الْآخِرَۃَ ثُمَّ صَرَفَکُمْ عَنْہُمْ لِیَبْتَلِیَکُمْ} فَلَمَّا خَالَفَ أَصْحَابُ النَّبِیِّ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وَعَصَوْا مَا أُمِرُوا بِہِ، أُفْرِدَ رَسُولُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فِی تِسْعَۃٍ سَبْعَۃٍ مِنَ الْأَنْصَارِ وَرَجُلَیْنِ مِنْ قُرَیْشٍ وَہُوَ
عَاشِرُہُمْ، فَلَمَّا رَہِقُوہُ، قَالَ: ((رَحِمَ اللّٰہُ رَجُلًا رَدَّہُمْ عَنَّا۔)) قَالَ: فَقَامَ رَجُلٌ مِنَ الْأَنْصَارِ فَقَاتَلَ سَاعَۃً حَتّٰی قُتِلَ، فَلَمَّا رَہِقُوہُ أَیْضًا قَالَ: ((یَرْحَمُ اللّٰہُ رَجُلًا رَدَّہُمْ عَنَّا۔)) فَلَمْ یَزَلْیَقُولُ ذَا حَتّٰی قُتِلَ السَّبْعَۃُ، فَقَالَ النَّبِیُّ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لِصَاحِبَیْہِ: ((مَا أَنْصَفْنَا أَصْحَابَنَا۔)) فَجَائَ أَبُو سُفْیَانَ فَقَالَ: اعْلُ ہُبَلُ، فَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ((قُولُوا: اَللَّہُ أَعْلٰی وَأَجَلُّ۔)) فَقَالُوا: اللّٰہُ أَعْلٰی وَأَجَلُّ، فَقَالَ أَبُو سُفْیَانَ: لَنَا عُزّٰی وَلَا عُزّٰی لَکُمْ، فَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ((قُولُوا: اللّٰہُ مَوْلَانَا وَالْکَافِرُونَ لَا مَوْلٰی لَہُمْ۔)) ثُمَّ قَالَ أَبُو سُفْیَانَ: یَوْمٌ بِیَوْمِ بَدْرٍ، یَوْمٌ لَنَا وَیَوْمٌ عَلَیْنَا، وَیَوْمٌ نُسَائُ وَیَوْمٌ نُسَرُّ، حَنْظَلَۃُ بِحَنْظَلَۃَ، وَفُلَانٌ بِفُلَانٍ، وَفُلَانٌ بِفُلَانٍ، فَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ((لَا سَوَائً أَمَّا قَتْلَانَا فَأَحْیَائٌیُرْزَقُونَ، وَقَتْلَاکُمْ فِی النَّارِ یُعَذَّبُونَ۔)) قَالَ أَبُو سُفْیَانَ: قَدْ کَانَتْ فِی الْقَوْمِ مُثْلَۃٌ، وَإِنْ کَانَتْ لَعَنْ غَیْرِ مَلَإٍ مِنَّا مَا أَمَرْتُ وَلَا نَہَیْتُ وَلَا أَحْبَبْتُ وَلَا کَرِہْتُ وَلَا سَائَ نِیْ وَلَا سَرَّنِی، قَالَ: فَنَظَرُوا فَإِذَا حَمْزَۃُ قَدْ بُقِرَ بَطْنُہُ وَأَخَذَتْ ہِنْدُ کَبِدَہُ فَلَاکَتْہَا فَلَمْ تَسْتَطِعْ أَنْ تَأْکُلَہَا، فَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ((أَأَکَلَتْ مِنْہُ شَیْئًا؟)) قَالُوا: لَا، قَالَ: ((مَا کَانَ اللّٰہُ لِیُدْخِلَ شَیْئًا مِنْ حَمْزَۃَ النَّارَ۔)) فَوَضَعَ رَسُولُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حَمْزَۃَ فَصَلَّی عَلَیْہِ، وَجِیئَ بِرَجُلٍ مِنْ الْأَنْصَارِ، فَوُضِعَ إِلَی جَنْبِہِ،فَصَلَّی عَلَیْہِ، فَرُفِعَ الْأَنْصَارِیُّ وَتُرِکَ حَمْزَۃُ، ثُمَّ جِیء َ بِآخَرَ فَوَضَعَہُ إِلَی جَنْبِ حَمْزَۃَ فَصَلَّی عَلَیْہِ، ثُمَّ رُفِعَ وَتُرِکَ حَمْزَۃُ، حَتَّی صَلَّی عَلَیْہِیَوْمَئِذٍ سَبْعِینَ صَلَاۃ۔ (مسند احمد: ۴۴۱۴)
سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ احد کے دن خواتین مسلمانوں کے پیچھے تھیں اور وہ مشرکین کے زخمی لوگوں کی مرہم پٹی اور خدمت کر رہی تھیں، میں اس روز قسم اُٹھا کر کہہ سکتا تھا کہ ہم میں سے ایک بھی آدمی دنیا کا خواہش مند اور طالب نہ تھا۔ یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی: {مِنْکُمْ مَنْ یُرِیدُ الدُّنْیَا وَمِنْکُمْ مَنْ یُرِیدُ الْآخِرَۃَ ثُمَّ صَرَفَکُمْ عَنْہُمْ لِیَبْتَلِیَکُمْ}… اس لیے کہ تم میں سے کچھ لوگ دنیا کے طالب تھے اور کچھ آخرت کی خواہش رکھتے تھے، تب اللہ نے تمہیں کافروں کے مقابلہ میں پسپا کر دیا تاکہ تمہاری آزمائش کرے۔ جب بعض صحابہ سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حکم کی خلاف ورزی ہو گئی اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حکم عدولی کے مرتکب ہوئے اور حالات نے رخ بدلا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سات انصار اور دو قریشیوں کے ایک گروپ میں علیحدہ ہو گئے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان میں دسویں فرد تھے، جب کفار آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر چڑھ آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اس آدمی پر اللہ کی رحمت ہو جو ان حملہ آوروں کو ہم سے ہٹائے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم برابر یہ بات کہتے رہے تاآنکہ ان میں سے سات آدمی شہید ہو گئے اور صرف دو آدمی باقی بچے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے ان دونوں ساتھیوں سے فرمایا: ہم نے اپنے ان ساتھیوں سے انصاف نہیں کیا (یعنی قریشیوں نے انصاریوں سے انصاف نہیں کیا کہ انصاری ہییکے بعد دیگرے نکل نکل کر شہید ہوتے گئے یا ہمارے جو لوگ میدان سے راہِ فرار اختیار کر گئے ہیں انہوں نے ہمارے ساتھ انصاف نہیں کیا)۔ ابو سفیان نے آکر کہا: اے ہبل! تو سربلند ہو تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اس کے جواب میں تم یوں کہو اَللّٰہُ أَعْلَی وَأَجَلُّ (اللہ ہی بلند شان والا اور بزرگی والا ہے۔) صحابہ نے بلند آواز سے کہا: اَللّٰہُ أَعْلَی وَأَجَلّ۔ُپھر ابو سفیان نے کہا: ہمارا تو ایک عزی ہے اور تمہارا کوئی عزی نہیں ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: تم کہو اللہ ہمارا مدد گار ہے اور کافروں کا کوئی بھی مدد گار نہیں ہے۔ پھر ابو سفیان نے کہا: آج کا دن بدر کے دن کا بدلہ ہے، آج ہمیں فتح ہوئی ہے، اس روز ہمیں شکست ہوئی تھی، ایک دن ہمیں برا لگا اور ایک دن ہمیں اچھا لگا، حنظلہ کے مقابلے میں حنظلہ، فلاں کے فلان مقابلے میں اور فلاں بالمقابل فلاں، یہ سن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ہمارے تمہارے درمیان کوئی برابری نہیں، ہمارے مقتولین زندہ ہیں، انہیں اللہ کی طرف سے رزق دیا جاتا ہے اور تمہارے مقتولین جہنم میں ہیں، انہیں عذاب سے دو چار کیا جاتا ہے۔ ابو سفیان نے کہا: تمہارے یعنی مسلمانوں کے مقتولین کا مثلہ کیا گیا ہے ،یہ کام ہماری رائے یا مشاورت کے بغیر ہوا ہے، میں نے نہ اس کا حکم دیا اور نہ اس سے روکا۔ اور میں نے اسے پسند یا نا پسند بھی نہیں کیا، مجھے اس کا نہ غم ہوا ہے اور نہ خوشی۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہ نے جب شہدائے کرام کو دیکھاتو سیّد نا حمزہ رضی اللہ عنہ کا پیٹ چاک کیا گیا تھا، ابو سفیان کی بیوی ہند نے ان کا جگر نکال کر اسے چبایا، مگر وہ اسے کھا نہ سکی،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دریافت فرمایا کہ کیا اس نے اس میں سے کچھ کھایا تھا؟ صحابہ نے عرض کیا: جی نہیں ،آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اللہ حمزہ کے جسم کے کسی بھی حصہ یا اس کے جزء کو جہنم میں داخل کرنے والا نہیں ہے۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سیدنا حمزہ رضی اللہ عنہ کی میت کو سامنے رکھ کر ان کی نماز جنازہ ادا کی، بعد ازاں ایک انصاری رضی اللہ عنہ کی میت کو لایا گیا، اسے سیّدنا حمزہ رضی اللہ عنہ کے پہلو میں رکھ کر اس کی نماز جنازہ ادا کی گئی، انصاری کی میت کو اُٹھا لیا گیا اور سیدنا حمزہ رضی اللہ عنہ کی میت کو وہیں رہنے دیا گیا، پھر ایک اور شہید کو لایا گیا، اسے بھی سیدنا حمزہ رضی اللہ عنہ کے پہلو میں رکھ کر اس کی نماز جنازہ ادا کی گئی، پھر اسے اُٹھا لیا گیا اور سیدنا حمزہ رضی اللہ عنہ کو وہیں رہنے دیا گیا،یہاں تک کہ اس روز نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کی نماز جنازہ ستر بار ادا فرمائی۔
Musnad Ahmad, Hadith(10731)