۔ (۱۰۷۴۵)۔ عَنْ ثَابِتٍ قَالَ کُنَّا عِنْدَ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ فَکَتَبَ کِتَابًا بَیْنَ أَہْلِہِ فَقَالَ: اشْہَدُوا، یَا مَعْشَرَ الْقُرَّائِ! قَالَ: ثَابِتٌ فَکَأَنِّی کَرِہْتُ ذَلِکَ، فَقُلْتُ: یَا أَبَا حَمْزَۃَ! لَوْ سَمَّیْتَہُمْ بِأَسْمَائِہِمْ، قَالَ: وَمَا بَأْسُ ذَلِکَ أَنْ أَقُلْ لَکُمْ قُرَّائُ، أَفَلَا أُحَدِّثُکُمْ عَنْ إِخْوَانِکُمْ الَّذِینَ کُنَّا نُسَمِّیہِمْ عَلَی عَہْدِ رَسُولِ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم الْقُرَّائَ، فَذَکَرَ أَنَّہُمْ کَانُوا سَبْعِینَ فَکَانُوا إِذَا جَنَّہُمْ اللَّیْلُ انْطَلَقُوا إِلٰی مُعَلِّمٍ لَہُمْ بِالْمَدِینَۃِ، فَیَدْرُسُونَ اللَّیْلَ حَتَّییُصْبِحُوا، فَإِذَا أَصْبَحُوا فَمَنْ کَانَتْ لَہُ قُوَّۃٌ اسْتَعْذَبَ مِنَ الْمَائِ وَأَصَابَ مِنَ الْحَطَبِ، وَمَنْ کَانَتْ عِنْدَہُ سَعَۃٌ اجْتَمَعُوا فَاشْتَرَوُا الشَّاۃَ وَأَصْلَحُوہَا، فَیُصْبِحُ ذٰلِکَ مُعَلَّقًا بِحُجَرِ رَسُولِ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فَلَمَّا أُصِیبَ خُبَیْبٌ بَعَثَہُمْ رَسُولُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فَأَتَوْا عَلٰی حَیٍّ مِنْ بَنِی سُلَیْمٍ وَفِیہِمْ خَالِی حَرَامٌ، فَقَالَ حَرَامٌ لِأَمِیرِہِمْ: دَعْنِی فَلْأُخْبِرْ ہٰؤُلَائِ أَنَّا لَسْنَا إِیَّاہُمْ نُرِیدُ حَتّٰییُخْلُوا وَجْہَنَا، وَقَالَ عَفَّانُ: فَیُخْلُونَ وَجْہَنَا، فَقَالَ لَہُمْ حَرَامٌ:
إِنَّا لَسْنَا إِیَّاکُمْ نُرِیدُ فَخَلُّوا وَجْہَنَا، فَاسْتَقْبَلَہُ رَجُلٌ بِالرُّمْحِ فَأَنْفَذَہُ مِنْہُ، فَلَمَّا وَجَدَ الرُّمْحَ فِی جَوْفِہِ، قَالَ: اللّٰہُ أَکْبَرُ فُزْتُ وَرَبِّ الْکَعْبَۃِ، قَالَ: فَانْطَوَوْا عَلَیْہِمْ فَمَا بَقِیَ أَحَدٌ مِنْہُمْ، فَقَالَ أَنَسٌ: فَمَا رَأَیْتُ رَسُولَ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وَجَدَ عَلٰی شَیْئٍ قَطُّ وَجْدَہُ عَلَیْہِمْ، فَلَقَدْ رَأَیْتُ رَسُولَ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فِی صَلَاۃِالْغَدَاۃِ رَفَعَ یَدَیْہِ فَدَعَا عَلَیْہِمْ، فَلَمَّا کَانَ بَعْدَ ذٰلِکَ إِذَا أَبُو طَلْحَۃَیَقُولُ لِی: ہَلْ لَکَ فِی قَاتِلِ حَرَامٍ؟ قَالَ: قُلْتُ لَہُ: مَا لَہُ فَعَلَ اللّٰہُ بِہِ وَفَعَلَ، قَالَ: مَہْلًا فَإِنَّہُ قَدْ أَسْلَمَ، وَقَالَ عَفَّانُ: رَفَعَ یَدَیْہِیَدْعُو عَلَیْہِمْ و قَالَ أَبُو النَّضْرِ رَفَعَ یَدَیْہِ۔ (مسند احمد: ۱۲۴۲۹)
ثابت سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں:ہم سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ کی خدمت میں تھے، انہوں نے اپنے اہل کے درمیان بیٹھ کر ایک مکتوب لکھا اور کہا: اے قراء کی جماعت! حاضر ہو جاؤ، ثابت کہتے ہیں:مجھے یہ لفظ کچھ اچھا نہ لگا، سو میں نے عرض کیا: اے ابو حمزہ! کیا ہی بہتر ہوتا کہ آپ ان لوگوں کو ان کے ناموں سے پکارتے، سیدنا انس رضی اللہ عنہ نے کہا: اس میں تو کوئی حرج نہیں کہ میں تمہیں قراء کہوں، کیا میں تمہیں تمہارے ان بھائیوں کے متعلق نہ بتلاؤں، جنہیں ہم عہدِ رسالت میں قراء کہا کرتے تھے۔ پھر انہو ں نے بیان کیا کہ وہ ستر افراد تھے، ان کی حالت یہ تھی کہ جب رات ہوتی تو وہ مدینہ میں اپنے ایک استاد کی خدمت میں پہنچ جاتے اور وہاں ساری رات صبح تک قرآن کا سبق لیتے اور جب صبح ہوتی تو جس میں استطاعت ہوتی وہ شیریں پانی لاتا۔( اور اسے فروخت کرتا) اور کوئی ایندھن کی لکڑیاں لا کر بیچ لیتا اور جس میں استطاعت ہوتی وہ مل کر بکری خرید لیتے، اسے خوب بنا سنوار کر ذبح کر کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حجروں کے پاس لٹکا دیتے، جب سیدنا خبیب رضی اللہ عنہ کی شہادت ہوئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان قراء کو ایک مہم پر روانہ فرمایا،یہ بنو سلیم کے ایک قبیلے میں گئے، ان کے ہمراہ میرے ماموں سیدنا حرام بن ملحان رضی اللہ عنہ بھی تھے۔ سیدنا حرام رضی اللہ عنہ نے اپنے امیرِ قافلہ سے گزارش کی کہ مجھے اجازت دیں تاکہ میں ان لوگوں کو بتا دوں کہ ہم ان سے لڑائی کرنے کے لیے نہیں آئے، تاکہ وہ ہمارا راستہ نہ روکیں، پس سیدنا حرام رضی اللہ عنہ نے جا کر ان سے کہا: ہم تمہارے ساتھ لڑنے کے لیے نہیں آئے، لہٰذا تم ہمارا راستہ نہ روکو۔ ایک آدمی نیزہ لے کر سیدنا حرام رضی اللہ عنہ کے سامنے آیا اور اس نے ان پر نیزے کا وار کر دیا، نیزہ ان کے جسم سے پار ہو گیا۔ انہوں نے جب اپنے پیٹ پر نیزے کا وار محسوس کیا تو زور سے کہا: اللہ اکبر، ربِّ کعبہ کی قسم! میں کامیاب ہو گیا ہوں۔ پھر وہ لوگ باقی قافلہ والوں کی طرف متوجہ ہوئے اور ان میں سے ایک بھی باقی نہ بچا۔ سیدنا انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو کسی موقع پر اس قدر غمگین نہیں دیکھا، جس قدر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس واقعہ سے غمگین ہوئے۔ میں نے دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نماز فجر میں ہاتھ اُٹھا کر ان ظالموں پر بددعا کرتے تھے، سیدنا ابو طلحہ انصاری رضی اللہ عنہ مجھ سے کہا کرتے تھے: کیا میں تمہیں تمہارے ماموں سیدنا حرام رضی اللہ عنہ کے قاتل کے متعلق بتلاؤں؟ میں نے کہا: اللہ نے اس کے ساتھ جو کرنا تھا کر لیا،اس نے کہا وہ تو اسلام قبول کر چکا ہے۔ عفان کی روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دونوں ہاتھ اُٹھا کر ان پر بددعائیں کیں۔اور ابو النضر نے یوں کہا کہ آپ نے اپنے دونوں ہاتھ اُٹھائے۔
Musnad Ahmad, Hadith(10745)