۔ (۱۰۷۴۹)۔ عَنْ أُمِّ سَلَمَۃَ قَالَتْ قَالَ أَبُو سَلَمَۃَ: قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ((إِذَا أَصَابَ أَحَدَکُمْ مُصِیبَۃٌ فَلْیَقُلْ: إِنَّا لِلَّہِ وَإِنَّا إِلَیْہِ رَاجِعُونَ، عِنْدَکَ احْتَسَبْتُ مُصِیبَتِی وَأْجُرْنِی فِیہَا وَأَبْدِلْنِی مَا ہُوَ خَیْرٌ مِنْہَا۔))، فَلَمَّا احْتُضِرَ أَبُو سَلَمَۃَ، قَالَ: اللَّہُمَّ اخْلُفْنِی فِی أَہْلِی بِخَیْرٍ، فَلَمَّا قُبِضَ
قُلْتُ: إِنَّا لِلَّہِ وَإِنَّا إِلَیْہِ رَاجِعُونَ، اَللّٰہُمَّ عِنْدَکَ أَحْتَسِبُ مُصِیبَتِی فَأْجُرْنِی فِیہَا، قَالَتْ: وَأَرَدْتُ أَنْ أَقُولَ وَأَبْدِلْنِی خَیْرًا مِنْہَا، فَقُلْتُ: وَمَنْ خَیْرٌ مِنْ أَبِی سَلَمَۃَ؟ فَمَا زِلْتُ حَتّٰی قُلْتُہَا، فَلَمَّا انْقَضَتْ عِدَّتُہَا، خَطَبَہَا أَبُو بَکْرٍ فَرَدَّتْہُ، ثُمَّ خَطَبَہَا عُمَرُ فَرَدَّتْہُ، فَبَعَثَ إِلَیْہَا رَسُولُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فَقَالَتْ: مَرْحَبًا بِرَسُولِ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وَبِرَسُولِہِ، أَخْبِرْ رَسُولَ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم أَنِّی امْرَأَۃٌ غَیْرٰیوَأَنِّی مُصْبِیَۃٌ وَأَنَّہُ لَیْسَ أَحَدٌ مِنْ أَوْلِیَائِی شَاہِدًا، فَبَعَثَ إِلَیْہَا رَسُولُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ((أَمَّا قَوْلُکِ إِنِّی مُصْبِیَۃٌ فَإِنَّ اللّٰہَ سَیَکْفِیکِ صِبْیَانَکِ، وَأَمَّا قَوْلُکِ إِنِّی غَیْرٰی فَسَأَدْعُو اللّٰہَ أَنْ یُذْہِبَ غَیْرَتَکِ، وَأَمَّا الْأَوْلِیَائُ فَلَیْسَ أَحَدٌ مِنْہُمْ شَاہِدٌ وَلَا غَائِبٌ إِلَّا سَیَرْضَانِی۔)) قُلْتُ: یَا عُمَرُ! قُمْ فَزَوِّجْ رَسُولَ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ((أَمَا إِنِّی لَا أَنْقُصُکِ شَیْئًا مِمَّا أَعْطَیْتُ أُخْتَکِ فُلَانَۃَ، رَحَیَیْنِ وَجَرَّتَیْنِ وَوِسَادَۃً مِنْ أَدَمٍ حَشْوُہَا لِیفٌ۔)) قَالَ: وَکَانَ رَسُولُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یَأْتِیہَا، فَإِذَا جَائَ أَخَذَتْ زَیْنَبَ فَوَضَعَتْہَا فِی حِجْرِہَا لِتُرْضِعَہَا، وَکَانَ رَسُولُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حَیِیًّا کَرِیمًایَسْتَحْیِی، فَرَجَعَ فَفَعَلَ ذٰلِکَ مِرَارًا فَفَطِنَ عَمَّارُ بْنُ یَاسِرٍ لِمَا تَصْنَعُ، فَأَقْبَلَ ذَاتَ یَوْمٍ وَجَائَ عَمَّارٌ وَکَانَ أَخَاہَا لِأُمِّہَا، فَدَخَلَ عَلَیْہَا فَانْتَشَطَہَا مِنْ حِجْرِہَا وَقَالَ: دَعِی ہٰذِہِ الْمَقْبُوحَۃَ الْمَشْقُوحَۃَ الَّتِی آذَیْتِ بِہَا رَسُولَ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قَالَ: وَجَائَ رَسُولُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فَدَخَلَ فَجَعَلَ یُقَلِّبُ بَصَرَہُ فِی الْبَیْتِ، وَیَقُولُ: ((أَیْنَ زَنَابُ؟ مَا فَعَلَتْ زَنَابُ؟)) قَالَتْ: جَائَ عَمَّارٌ فَذَہَبَ بِہَا، قَالَ: فَبَنٰی بِأَہْلِہِ ثُمَّ قَالَ: ((إِنْ شِئْتِ أَنْ أُسَبِّعَ لَکِ سَبَّعْتُ لِلنِّسَائِ۔)) (مسند احمد: ۲۷۲۰۴)
سیّدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے یہ بھی مروی ہے کہ سیدنا ابو سلمہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد ہے کہ جب تم میں سے کسی کو کوئی مصیبت آئے تو اسے چاہیے کہ وہ کہے: إِنَّا لِلَّہِ وَإِنَّا إِلَیْہِ رَاجِعُونَ، عِنْدَکَ اِحْتَسَبْتُ مُصِیبَتِی وَأْجُرْنِی فِیہَا وَأَبْدِلْنِی مَا ہُوَ خَیْرٌ مِنْہَا (بیشک ہم اللہ تعالیٰ کے لیے ہیں اور بیشک ہم نے اسی کی طرف لوٹنا ہے، اے اللہ میں اپنی اس مصیبت کا تجھ سے اجر چاہتا ہوں، تو مجھے اس کا اجر اور اس کا نعم البدل عطا فرما)۔ جب میرے شوہر ابو سلمہ رضی اللہ عنہ کا انتقال ہونے لگا تو انہوں نے کہا: یا اللہ! میرے بعد میرے اہل میں اچھا نائب بنانا۔ جب ان کا انتقال ہوا تو میں نے کہا:إِنَّا لِلَّہِ وَإِنَّا إِلَیْہِ رَاجِعُونَ، عِنْدَکَ اِحْتَسَبْتُ مُصِیبَتِی وَأْجُرْنِی فِیہَا وَأَبْدِلْنِی مَا ہُوَ خَیْرٌ مِنْہَا۔سیّدہ فرماتی ہیں: میں نے یوں کہنا چاہا کہ وَأَبْدِلْنِی مَا ہُوَ خَیْرٌ مِنْہَا ( اور مجھے اس سے بہتر بدلہ عطا فرما)، لیکن ساتھ ہی مجھے یہ خیال آیا کہ ابو سلمہ رضی اللہ عنہ سے بہتر کون ہو سکتا ہے؟ میں یہ سوچتی رہی، آخر کا میں نے یہ لفظ بھی کہہ ہی دئیے، جب ان کی عدت پوری ہوئی تو سیّدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے انہیں نکاح کا پیغام بھیجا، انہوں نے ان کو رد کر دیا، پھر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے نکاح کا پیغام بھیجا، انہوں نے ان کو بھی رد کر دیا، پھر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نکاح کا پیغام بھیجا تو انہوں نے کہا: اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ان کے قاصد کو خوش آمدید، لیکن تم جا کر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ذکر کرو کہ میں تو بہت زیادہ غیرت والی ہوں اور میں صاحبِ اولاد بھی ہوں اور میرے سر پر ستوں میں سے یہاں کوئی بھی موجود نہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے واپسی جواب بھیجا کہ تمہارا یہ کہنا کہ تم صاحبِ اولاد ہو اس بارے میں فکر مند ہونے کی ضرورت نہیں، بچوں کے بارے میں اللہ تمہاری مدد فرمائے گا اور تمہارا یہ کہنا کہ تم انتہائی غیرت مند ہو تو میں اللہ سے دعا کر وں گا کہ وہ تمہاری غیر ت کی اس شدت کو ختم کر دے اور تمہارا یہ کہنا کہ تمہارے سر پرستوں میں سے کوئی بھییہاں موجود نہیں، تو یاد رہے کہ تمہارا کوئی بھی سر پرست، وہ موجود ہو یا غائب، وہ میرے متعلق رضا مندی کا ہی اظہار کرے گا۔ یہ سن کر میں نے اپنے بیٹے عمر سے کہا کہ اٹھو اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے میرا نکاح کر دو۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: میں نے تمہاری فلاں بہن کوجو کچھ دیا ہے، تمہیں اس سے کم نہ دوں گا، اسے دو چکیاں، دو مٹکے، اور چمڑے کا ایک تکیہ، جس میں کھجور کی چھال بھری تھی، دئیے تھے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کے ہاں آتے اور وہ اپنی دختر زینب کو گود میں اٹھائے دودھ پلا رہی ہوتی تو چوں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی انتہائی حیا دار اور مہربان تھے، ان کو اس کیفیت میں دیکھتے تو واپس چلے جاتے، اس قسم کی صورت حال کئی مرتبہ پیش آئی، سیدنا عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ کو اس کا پتہ چل گیا وہ ان کا مادری بھائی تھا، تو ایک دن سیدنا عمار رضی اللہ عنہ آکر زینب کو ان کی گود سے اٹھالے گئے اور کہا کہ تم اس بچی کو چھوڑو، جس کی وجہ سے تم اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو پریشان کرتی ہو۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم گھر تشریف لائے تو ادھر ادھر دیکھنے لگے اور فرمایا: زناب کہاں ہے؟ زناب کدھر گئی؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مراد زینب تھی، سیّدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے بتلایا کہ عمار رضی اللہ عنہ آئے تھے اور وہ اسے لے گئے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے اہل خانہ کے ساتھ وقت گزارا اور فرمایا: اگر تم چاہو تو تمہارے پاس سات دن قیام کروں گا، لیکنیاد رکھو پھر میں اپنی تمام ازواج کے ہاں سات سات دن قیام کرنے بعد میں تمہارے پاس آؤں گا۔
Musnad Ahmad, Hadith(10749)