Blog
Books



۔ (۱۰۷۵۲)۔ عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ یَقُولُ: کُنَّا مَعَ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فِی غَزْوَۃٍ، قَالَ: یَرَوْنَ أَنَّہَا غَزْوَۃُ بَنِی الْمُصْطَلِقِ، فَکَسَعَ رَجُلٌ مِنَ الْمُہَاجِرِینَ رَجُلًا مِنَ الْأَنْصَارِ، فَقَالَ الْأَنْصَارِیُّ: یَا لَلْأَنْصَارِ! وَقَالَ الْمُہَاجِرِیُّ: یَا لَلْمُہَاجِرِینَ! فَسَمِعَ ذٰلِکَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقَالَ: ((مَا بَالُ دَعْوَی الْجَاہِلِیَّۃِ۔)) فَقِیلَ: رَجُلٌ مِنَ الْمُہَاجِرِینَ کَسَعَ رَجُلًا مِنَ الْأَنْصَارِ، فَقَالَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((دَعُوہَا فَإِنَّہَا مُنْتِنَۃٌ۔)) قَالَ جَابِرٌ: وَکَانَ الْمُہَاجِرُونَ حِینَ قَدِمُوا الْمَدِینَۃَ أَقَلَّ مِنَ الْأَنْصَارِ، ثُمَّ إِنَّ الْمُہَاجِرِینَ کَثُرُوا، فَبَلَغَ ذٰلِکَ عَبْدَ اللّٰہِ بْنَ أُبَیٍّ، فَقَالَ: فَعَلُوہَا وَاللّٰہِ! لَئِنْ رَجَعْنَا إِلَی الْمَدِینَۃِ لَیُخْرِجَنَّ الْأَعَزُّ مِنْہَا الْأَذَلَّ، فَسَمِعَ ذٰلِکَ عُمَرُ فَأَتَی النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقَالَ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! دَعْنِی أَضْرِبُ عُنُقَ ہٰذَا الْمُنَافِقِ، فَقَالَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((یَا عُمَرُ! دَعْہُ لَا یَتَحَدَّثُ النَّاسُ أَنَّ مُحَمَّدًا یَقْتُلُ أَصْحَابَہُ۔))۔ (مسند احمد: ۱۵۲۹۳)
سیدنا جا بر بن عبداللہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: ہم ایک غزوہ میں رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ہمراہ تھے، لوگوں کا خیال ہے کہ یہ غزوہ بنی مصطلق تھا، اسی دوران ایک مہاجر شخص نے ایک انصاری کی دُبُر پر ہاتھ مار دیا تو انصاری نے دہائی دیتے ہوئے کہا: انصاریو! ذرا ادھر آنا اور مہاجر نے بھی مہاجرین کو اپنی مدد کے لیے پکارا، نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان لوگوں کییہ باتیں سنیں تو فرمایا: یہ جاہلیت والی پکاریں کس لیے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو بتایا گیا کہ مہاجرین میں سے کسی نے ایک انصاری کی دبرپر ہاتھ مار دیا ہے تو نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ایسی باتوں کو دفع کرو، یہ بدبودار یعنی فتنہ انگیز اور شر انگیز باتیں ہیں۔ سیدنا جابر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں:مہاجرین جب ہجرت کر کے مدینہ منورہ آئے تھے تو ان کی تعداد انصار سے بہت تھوڑی تھی، بعد میں مہاجرین کی تعداد بڑھ گئی۔ جب مہاجرین اور انصاریوں والی بات رئیس المنافقین عبداللہ بن ابی تک پہنچی تو وہ کہنے لگا: کیا مہاجرین اب اس حد تک آگے نکل گئے ہیں؟ اللہ کی قسم! اگر ہم مدینہ واپس گئے تو ہم معزز لوگ ان ذلیلوں کو مدینہ سے باہر نکال دیں گے۔ سیّدناعمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے یہ سنا تو وہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں آئے اور عرض کیا: اللہ کے رسول! مجھے اجازت دیں، میں اس منافق کی گردن اتار دوں؟ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اے عمر! اسے چھوڑو، لوگ یہ نہ کہنا شروع کر دیں کہ محمد ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اپنے ہی ساتھیوں کو قتل کرتا ہے۔
Musnad Ahmad, Hadith(10752)
Background
Arabic

Urdu

English