۔ (۱۰۷۵۶)۔ عَنْ مَسْرُوقٍ عَنْ أُمِّ رُومَانَ، وَہِیَ أُمُّ عَائِشَۃَ، قَالَتْ: کُنْتُ أَنَا وَعَائِشَۃُ قَاعِدَۃً فَدَخَلَتْ امْرَأَۃٌ مِنَ الْأَنْصَارِ، فَقَالَتْ: فَعَلَ اللّٰہُ بِفُلَانٍ وَفَعَلَ تَعْنِی ابْنَہَا، قَالَتْ: فَقُلْتُ لَہَا: وَمَا ذٰلِکَ؟ قَالَتْ: ابْنِی کَانَ فِیمَنْ حَدَّثَ الْحَدِیثَ، قَالَتْ: فَقُلْتُ لَہَا: وَمَا الْحَدِیثُ؟ قَالَتْ: کَذَا وَکَذَا، فَقَالَتْ عَائِشَۃُ: أَسَمِعَ بِذٰلِکَ أَبُو بَکْرٍ؟ قَالَتْ: نَعَمْ، قَالَتْ: أَسَمِعَ بِذٰلِکَ رَسُولُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قَالَتْ: نَعَمْ، فَوَقَعَتْ أَوْ سَقَطَتْ مَغْشِیًّا عَلَیْہَا، فَأَفَاقَتْ حُمَّی بِنَافِضٍ فَأَلْقَیْتُ عَلَیْہَا الثِّیَابَ، فَدَخَلَ رَسُولُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فَقَالَ: ((مَا لِہٰذِہِ؟)) قَالَتْ: فَقُلْتُ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! أَخَذَتْہَا حُمّٰی بِنَافِضٍ، قَالَ: ((لَعَلَّہُ مِنَ الْحَدِیثِ الَّذِی تُحُدِّثَ بِہِ؟)) قَالَتْ: قُلْتُ: نَعَمْ، یَا رَسُولَ اللّٰہِ! فَرَفَعَتْ عَائِشَۃُ رَأْسَہَا وَقَالَتْ: إِنْ قُلْتُ: لَمْ
تَعْذِرُونِی، وَإِنْ حَلَفْتُ لَمْ تُصَدِّقُونِی، وَمَثَلِی وَمَثَلُکُمْ کَمَثَلِ یَعْقُوبَ وَبَنِیہِ حِینَ قَالَ: {فَصَبْرٌ جَمِیلٌ وَاللّٰہُ الْمُسْتَعَانُ عَلٰی مَا تَصِفُونَ} فَلَمَّا نَزَلَ عُذْرُہَا أَتَاہَا النَّبِیُّ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فَأَخْبَرَہَا بِذَلِکَ، فَقَالَتْ: بِحَمْدِ اللّٰہِ لَا بِحَمْدِکَ أَوْ قَالَتْ: وَلَا بِحَمْدِ أَحَدٍ۔ (مسند احمد: ۲۷۶۱۰)
سیّدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی ماں سیدہ ام رومان رضی اللہ عنہا سے مروی ہے، وہ کہتی ہیں: میں اور عائشہ رضی اللہ عنہا بیٹھی تھیں کہ ایک انصاری خاتون آئی اور وہ اپنے بیٹے کے متعلق کہنے لگی کہ اللہ اسے ہلاک کرے، تباہ کرے، میں نے اس سے کہا: کیا بات ہے؟ اس نے کہا: وہ بات کرنے والوں میں میرا بیٹا بھی شامل ہے۔ ام رومان رضی اللہ عنہا نے کہا: کونسی بات؟ اس نے کہا: فلاں بات، سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے دریافت کیا کہ آیایہ بات ابوبکر رضی اللہ عنہ نے بھی سنی ہے؟ اس عورت نے کہا: جی ہاں، انہوں نے پھر پوچھا: کیا اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بھی اس کا علم ہو چکا ہے؟ اس نے کہا: جی ہاں! یہ سنتے ہی وہ گر گئی اور وہ بے ہوش ہو گئی اسے شدت کا بخار ہو گیا، اور جسم کانپنے لگا، میں نے اس پر کپڑے ڈالے، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف لے آئے اور پوچھا: اسے کیا ہوا؟ میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! اسے شدید بخاری ہو گیا ہے اور اس کا جسم کانپ رہا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: شاید اس کییہ کیفیت اس بات کی وجہ سے ہوئی ہے جو کہی جا رہی ہے؟ اس نے کہا: جی ہاں، اے اللہ کے رسول! یہ باتیں سن کر سیّدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے سر اُٹھایا اور کہا: اگر میں اپنے حق میں کچھ کہوں تو آپ میری معذرت قبول نہیں کریں گے اور اگر میں قسم اُٹھاؤں تب بھی آپ میری بات نہیں مانیں گے، میری اور آپ کی مثال یعقوب علیہ السلام اور ان کے بیٹوں کی سی ہے، جنہوں نے بیٹوں کی بات سن کر کہا تھا: {فَصَبْرٌ جَمِیلٌ وَاللّٰہُ الْمُسْتَعَانُ عَلٰی مَا تَصِفُونَ} … پس صبر کرنا ہی بہتر ہے، تم جو کچھ بیان کر رہے ہو اس پر اللہ ہی کی مدد درکار ہے۔ (سورۂ یوسف: ۱۸) پس جب اللہ کی طرف سے ان کی براء ت نازل ہوئی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کے پاس آئے اور انہیں نزولِ براء ت کی اطلاع دی تو سیّدہ رضی اللہ عنہا نے کہا: میں اللہ کی حمد کرتی ہوں، آپ کی نہیں،یایوں کہا کہ اللہ کے سوا کسی کی حمد نہیں۔
Musnad Ahmad, Hadith(10756)