۔ (۱۰۷۹۲)۔ عَنِ الْبَرَائِ قَالَ: اعْتَمَرَ رَسُولُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فِی ذِی الْقَعْدَۃِ، فَأَبٰی أَہْلُ مَکَّۃَ أَنْ یَدَعُوہُیَدْخُلُ مَکَّۃَ حَتّٰی قَاضَاہُمْ عَلٰی أَنْ یُقِیمَ بِہَا ثَلَاثَۃَ أَیَّامٍ، فَلَمَّا کَتَبُوا الْکِتَابَ کَتَبُوا ہٰذَا مَا قَاضٰی عَلَیْہِ مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللّٰہِ، قَالُوا: لَا نُقِرُّ بِہٰذَا، لَوْ نَعْلَمُ أَنَّکَ رَسُولُ اللّٰہِ مَا مَنَعْنَاکَ شَیْئًا، وَلٰکِنْ أَنْتَ مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللّٰہِ، قَالَ: ((أَنَا رَسُولُ اللّٰہِ وَأَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللّٰہِ۔)) قَالَ لِعَلِیٍّ: ((امْحُ رَسُولُ اللّٰہِ۔)) قَالَ: وَاللّٰہِ! لَا أَمْحُوکَ أَبَدًا، فَأَخَذَ النَّبِیُّ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم الْکِتَابَ وَلَیْسَیُحْسِنُ أَنْ یَکْتُبَ فَکَتَبَ مَکَانَ رَسُولُ اللّٰہِ ہٰذَا مَا قَاضٰی عَلَیْہِ مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللّٰہِ، أَنْ لَا یُدْخِلَ مَکَّۃَ السِّلَاحَ إِلَّا السَّیْفَ فِی الْقِرَابِ، وَلَا یَخْرُجَ مِنْ أَہْلِہَا أَحَدٌ إِلَّا مَنْ أَرَادَ أَنْ یَتَّبِعَہُ، وَلَا یَمْنَعَ أَحَدًا مِنْ أَصْحَابِہِ أَنْ یُقِیمَ بِہَا، فَلَمَّا دَخَلَہَا وَمَضَی الْأَجَلُ أَتَوْا عَلِیًّا فَقَالُوْا: قُلْ لِصَاحِبِکَ فَلْیَخْرُجْ عَنَّا فَقَدْ مَضَی الْأَجَلُ، فَخَرَجَ رَسُولُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ۔ (مسند احمد: ۱۸۸۳۸)
سیدنا براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ذوالقعدہ کے مہینے میں عمرہ کا قصد کیا، لیکن اہلِ مکہ نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مکہ میں داخل نہ ہونے دیا،یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ان سے یہ معاہدہ ہوا کہ آپ آئندہ سال مکہ میں تین دن قیام کر سکیں گے، جب معاہدہ کی عبارت لکھنے لگے تو انہوں نے لکھا: یہ وہ معاہدہ ہے جس پر محمد رسول اللہ نے اتفاق کیا ہے، قریش کہنے لگے: ہم تو اس کا اقرار ہی نہیں کرتے کہ آپ اللہ کے رسول ہیں، اگر ہم آپ کو اللہ کا رسول تسلیم کرتے تو ہم آپ کو کسی بھی بات سے نہ روکتے، آپ تو محمد بن عبداللہ ہیں ( یہی لکھو)، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: میں رسول اللہ بھی ہوں اور محمد بن عبداللہ بھی ہوں، پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سیّدنا علی رضی اللہ عنہ سے فرمایا: رسول اللہ کا لفظ کو مٹا دو۔ انہوں نے عرض کیا: اللہ کی قسم! میں کبھی بھییہ نہیں مٹاؤں گا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے وہ کاغذ لے لیا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اچھی طرح لکھ نہیں سکتے تھے۔ دوسری روایت کے الفاظ ہیں: آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سیّدنا علی رضی اللہ عنہ سے فرمایا: اس لفظ کو مٹا دو۔ انہوں نے عرض کیا: میں تو ان الفاظ کو مٹا نہیں سکتا۔تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے ہاتھ سے اس لفظ کو مٹا دیا۔ اس کے بعد سیّدنا علی رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لفظ کی جگہ یوں لکھا: یہ وہ معاہدہ ہے جس پر محمد بن عبداللہ نے صلح کی ہے، وہ مکہ میں اسلحہ لے کر داخل نہ ہوں گے، ان کے پاس صرف تلواریں ہوں گی اور وہ بھی نیام کے اندر ہوں گی اور وہ اہل مکہ میں سے کسی کو بھی اپنے ساتھ نہیں لے جا سکیں گے، مگر وہ جو اس کی پیروی کرنے کا ارادہ رکھتا ہو1 اور اگر ان کے ساتھیوں میں سے کوئی مستقل طور پرمکہ مکرمہ میں رہنا چاہے تو یہ اسے نہیں روکیں گے، اگلے سال جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مکہ مکرمہ آئے اور مقرر وقت گزر گیا تو قریشی لوگ سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اور کہا کہ آپ اپنے رسول سے کہیں کہ مقرر وقت گزر گیا ہے، اب یہاں سے نکل لے جائیں۔ پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وہاں سے روانہ ہو گئے۔
Musnad Ahmad, Hadith(10792)