Blog
Books



۔ (۱۰۸۱۰)۔ حَدَّثَنَا إِیَاسُ بْنُ سَلَمَۃَ بْنِ الْأَکْوَعِ عَنْ أَبِیہِ قَالَ: قَدِمْنَا الْمَدِینَۃَ زَمَنَ الْحُدَیْبِیَۃِ مَعَ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَخَرَجْنَا أَنَا وَرَبَاحٌ غُلَامُ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بِظَہْرِ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَخَرَجْتُ بِفَرَسٍ لِطَلْحَۃَ بْنِ عُبَیْدِ اللّٰہِ، کُنْتُ أُرِیدُ أَنْ أُبْدِیَہُ مَعَ الْإِبِلِ، فَلَمَّا کَانَ بِغَلَسٍ غَارَ عَبْدُ الرَّحْمٰنِ بْنُ عُیَیْنَۃَ عَلٰی إِبِلِ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَقَتَلَ رَاعِیَہَا وَخَرَجَیَطْرُدُہَا ہُوَ وَأُنَاسٌ مَعَہُ فِی خَیْلٍ، فَقُلْتُ: یَا رَبَاحُ! اقْعُدْ عَلٰی ہٰذَا الْفَرَسِ فَأَلْحِقْہُ بِطَلْحَۃَ وَأَخْبِرْ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم أَنَّہُ قَدْ أُغِیرَ عَلٰی سَرْحِہِ، قَالَ: وَقُمْتُ عَلٰی تَلٍّ فَجَعَلْتُ وَجْھِیْ مِنْ قِبَلِ الْمَدِیْنَۃِ، ثُمَّ نَادَیْتُ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ: یَا صَبَاحَاہ! ثُمَّ اتَّبَعْتُ الْقَوْمَ مَعِیَ سَیْفِیْ وَنَبَلِیْ فَجَعَلْتُ اَرْمِیْھِمْ وَاَعْقرُ بِھِمْ وَذٰلک حِیْنَیَکْثُرُ الشَّجَرُ، فَاِذَا رَجَعَ اِلَیَّ فَارِسٌ جَلَسْتُ لَہُ فِیْ اَصْلِ الشَّجَرَۃِ ثُمَّ رَمَیْتُ، فَلَا یَقْبَلُ عَلَیَّ فَارِسٌ إِلَّا عَقَرْتُ بِہِ فَجَعَلْتُ اَرْمِیْھِمْ رَاحِلَتِہِ وَاَقُوْلُ: أَنَا ابْنُ الْأَکْوَعِ وَالْیَوْمُیَوْمُ الرُّضَّع، فَاَلْحَقُ بِرَجْلٍ مِنْھُمْ فَاَرْمِیْہِ وَھُوَ عَلٰی رَاحِلَتِہِ فَیَقْعُ سَھْمِیْ فِی الرَّجُلِ حَتَّی انْتَظَمْتُ کَتِفَہُ فَقُلْتُ: خُذْھَا وَأَنَا ابْنُ الْأَکْوَعِ وَالْیَوْمُیَوْمُ الرُّضَّعِ فَاِذَا کُنْتُ فِی الشَّجَرِ اَحْرَقْتُھُمْ بِالنَّبَلِ فَاِذَا تَضَایَقَتِ الثَّنَایَا عَلَوْتُ الْجَبَلَ فَرَدَّیْتُھُمْ بِالْحِجَارَۃِ، فَمَا ذَاکَ شَاْنِیْ وَشَاْنُہُمْ اَتْبَعُہُمْ فَاَرْتَجِزُ حَتّٰی مَا خَلَقَ اللّٰہُ شَیْئاً مِنْ ظَہْرِ رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم إِلَّا خَلَفْتُہُ وَرَائَ ظَہْرِیْ فَاسْتَنْقَذْتُہُ مِنْ اَیْدِیْہِمْ، ثُمَّ لَمْ اَزَلْ اَرْمِیْہِمْ حَتّٰی اَلْقَوْا اَکْثَرَ مِنْ ثَلَاثِیْنَ رُمْحاً، وَاَکْثَرَ مِنْ ثَلَاثِیْنَ بُرْدَۃًیَسْتَخِفُّوْنَ مِنْہَا، وَلَا یُلْقَوْنَ مِنْ ذٰلِکَ شَیْئًا إِلَّا جَعَلْتُ عَلَیْہِ حِجَارَۃً وَجَمَعْتُ عَلٰی طَرِیْقِ رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم حَتّٰی إِذَا امْتَدَّ الضُّحٰی اَتَاھُمْ عُیَیْنَۃُ بْنُ بَدْرٍ الْفَزَارِیُّ مَدَدًا لَھُمْ، وَھُمْ فِیْ ثَنِیَّۃٍ ضَیْقَۃٍ، ثُمَّ عَلَوْتُ الْجَبَلَ فَاَنَا فَوْقَہُمْ فَقَالَ عُیَیْنَۃُ: مَا ھٰذَا الَّذِیْ أرٰی قَالُوا: لَقِینَا مِنْ ہٰذَا الْبَرْحَ مَا فَارَقَنَا بِسَحَرٍ حَتّٰی الْآنَ وَأَخَذَ کُلَّ شَیْء ٍ فِی أَیْدِینَا وَجَعَلَہُ وَرَاء َ ظَہْرِہِ، قَالَ عُیَیْنَۃُ: لَوْلَا أَنَّ ہٰذَا یَرَی أَنَّ وَرَائَ ہُ طَلَبًا لَقَدْ تَرَکَکُمْ لِیَقُمْ إِلَیْہِ نَفَرٌ مِنْکُمْ، فَقَامَ إِلَیْہِ مِنْہُمْ أَرْبَعَۃٌ فَصَعِدُوْا فِی الْجَبَلِ، فَلَمَّا أَسْمَعْتُہُمْ الصَّوْتَ قُلْتُ: أَتَعْرِفُونِی؟ قَالُوا: وَمَنْ أَنْتَ؟ قُلْتُ: أَنَا ابْنُ الْأَکْوَعِ، وَالَّذِی کَرَّمَ وَجْہَ مُحَمَّدٍ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ! لَا یَطْلُبُنِی مِنْکُمْ رَجُلٌ فَیُدْرِکُنِی وَلَا أَطْلُبُہُ فَیَفُوتُنِی، قَالَ رَجُلٌ مِنْہُمْ: إِنْ أَظُنُّ قَالَ فَمَا بَرِحْتُ مَقْعَدِی ذٰلِکَ حَتّٰی نَظَرْتُ إِلٰی فَوَارِسِ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَتَخَلَّلُونَ الشَّجَرَ، وَإِذَا أَوَّلُہُمْ الْأَخْرَمُ الْأَسَدِیُّ، وَعَلٰی أَثَرِہِ أَبُو قَتَادَۃَ فَارِسُ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَعَلٰی أَثَرِ أَبِی قَتَادَۃَ الْمِقْدَادُ الْکِنْدِیُّ فَوَلَّی الْمُشْرِکُونَ مُدْبِرِینَ، وَأَنْزِلُ مِنَ الْجَبَلِ فَأَعْرِضُ لِلْأَخْرَمِ فَآخُذُ بِعِنَانِ فَرَسِہِ، فَقُلْتُ: یَا أَخْرَمُ! ائْذَنِ الْقَوْمَ یَعْنِی احْذَرْہُمْ، فَإِنِّی لَا آمَنُ أَنْ یَقْطَعُوکَ فَاتَّئِدْ حَتّٰییَلْحَقَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَأَصْحَابُہُ، قَالَ: یَا سَلَمَۃُ! إِنْ کُنْتَ تُؤْمِنُ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْآخِرِ، وَتَعْلَمُ أَنَّ الْجَنَّۃَ حَقٌّ وَالنَّارَ حَقٌّ، فَلَا تَحُلْ بَیْنِی وَبَیْنَ الشَّہَادَۃِ، قَالَ: فَخَلَّیْتُ عِنَانَ فَرَسِہِ فَیَلْحَقُ بِعَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ عُیَیْنَۃَ، وَیَعْطِفُ عَلَیْہِ عَبْدُ الرَّحْمٰنِ، فَاخْتَلَفَا طَعْنَتَیْنِ فَعَقَرَ الْأَخْرَمُ بِعَبْدِ الرَّحْمٰنِ، وَطَعَنَہُ عَبْدُ الرَّحْمٰنِ فَقَتَلَہُ، فَتَحَوَّلَ عَبْدُ الرَّحْمٰنِ عَنْ فَرَسِ الْأَخْرَمِ، فَیَلْحَقُ أَبُو قَتَادَۃَ بِعَبْدِ الرَّحْمٰنِ، فَاخْتَلَفَا طَعْنَتَیْنِ فَعَقَرَ بِأَبِی قَتَادَۃَ وَقَتَلَہُ أَبُو قَتَادَۃَ، وَتَحَوَّلَ أَبُو قَتَادَۃَ عَلٰی فَرَسِ الْأَخْرَمِ، ثُمَّ إِنِّی خَرَجْتُ أَعْدُو فِی أَثَرِ الْقَوْمِ حَتّٰی مَا أَرٰی مِنْ غُبَارِ صَحَابَۃِ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم شَیْئًا، وَیُعْرِضُونَ قَبْلَ غَیْبُوبَۃِ الشَّمْسِ إِلٰی شِعْبٍ فِیہِ مَائٌ یُقَالُ لَہُ: ذُو قَرَدٍ،فَأَرَادُوا أَنْ یَشْرَبُوا مِنْہُ، فَأَبْصَرُونِی أَعْدُو وَرَائَ ہُمْ، فَعَطَفُوا عَنْہُ وَاشْتَدُّوا فِی الثَّنِیَّۃِ ثَنِیَّۃِ ذِی بِئْرٍ وَغَرَبَتِ الشَّمْسُ، فَأَلْحَقُ رَجُلًا فَأَرْمِیہِ: فَقُلْتُ: خُذْہَا، وَأَنَا ابْنُ الْأَکْوَعِ، وَالْیَوْمُیَوْمُ الرُّضَّعِ، قَالَ: فَقَالَ: یَا ثُکْلَ أُمِّ أَکْوَعَ بَکْرَۃً، قُلْتُ: نَعَمْ، أَیْ عَدُوَّ نَفْسِہِ! وَکَانَ الَّذِی رَمَیْتُہُ بَکْرَۃً فَأَتْبَعْتُہُ سَہْمًا آخَرَ، فَعَلِقَ بِہِ سَہْمَانِ، وَیَخْلُفُونَ فَرَسَیْنِ، فَجِئْتُ بِہِمَا أَسُوقُہُمَا إِلٰی رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَہُوَ عَلَی الْمَائِ الَّذِی جَلَّیْتُہُمْ عَنْہُ ذُوْ قَرَدٍ، فَإِذَا بِنَبِیِّ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فِی خَمْسِ مِائَۃٍ، وَإِذَا بِلَالٌ قَدْ نَحَرَ جَزُورًا مِمَّا خَلَّفْتُ فَہُوَ یَشْوِی لِرَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مِنْ کَبِدِہَا وَسَنَامِہَا، فَأَتَیْتُ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقُلْتُ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! خَلِّنِی فَأَنْتَخِبَ مِنْ أَصْحَابِکَ مِائَۃً فَآخُذَ عَلَی الْکُفَّارِ عَشْوَۃً فَلَا یَبْقٰی مِنْہُمْ مُخْبِرٌ إِلَّا قَتَلْتُہُ، قَالَ: ((أَکُنْتَ فَاعِلًا ذٰلِکَ یَا سَلَمَۃُ۔)) قَالَ: نَعَمْ، وَالَّذِی أَکْرَمَکَ! فَضَحِکَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم حَتّٰی رَأَیْتُ نَوَاجِذَہُ فِی ضَوئِ النَّارِ، ثُمَّ قَالَ: ((إِنَّہُمْ یُقْرَوْنَ الْآنَ بِأَرْضِ غَطَفَانَ۔)) فَجَائَ رَجُلٌ مِنْ غَطَفَانَ، فَقَالَ: مَرُّوا عَلَی فُلَانٍ الْغَطَفَانِیِّ فَنَحَرَ لَہُمْ جَزُورًا، قَالَ: فَلَمَّا أَخَذُوا یَکْشِطُونَ جِلْدَہَا رَأَوْا غَبَرَۃً فَتَرَکُوہَا وَخَرَجُوا ہَرَبًا، فَلَمَّا أَصْبَحْنَا قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((خَیْرُ فُرْسَانِنَا الْیَوْمَ أَبُو قَتَادَۃَ، وَخَیْرُ رَجَّالَتِنَا سَلَمَۃُ۔)) فَأَعْطَانِی رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سَہْمَ الرَّاجِلِ وَالْفَارِسِ جَمِیعًا، ثُمَّ أَرْدَفَنِی وَرَائَ ہُ عَلَی الْعَضْبَائِ رَاجِعِینَ إِلَی الْمَدِینَۃِ، فَلَمَّا کَانَ بَیْنَنَا وَبَیْنَہَا قَرِیبًا مِنْ ضَحْوَۃٍ وَفِی الْقَوْمِ رَجُلٌ مِنَ الْأَنْصَارِ کَانَ لَا یُسْبَقُ، جَعَلَ یُنَادِی: ہَلْ مِنْ مُسَابِقٍ أَلَا رَجُلٌ یُسَابِقُ إِلَی الْمَدِینَۃِ؟ فَأَعَادَ ذٰلِکَ مِرَارًا وَأَنَا وَرَائَ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مُرْدِفِی قُلْتُ لَہُ: أَمَا تُکْرِمُ کَرِیمًا، وَلَا تَہَابُ شَرِیفًا؟)) قَالَ: لَا إِلَّا رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: قُلْتُ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! بِأَبِی أَنْتَ وَأُمِّی، خَلِّنِی فَلَأُسَابِقُ الرَّجُلَ، قَالَ: ((إِنْ شِئْتَ۔)) قُلْتُ أَذْہَبُ إِلَیْکَ فَطَفَرَ عَنْ رَاحِلَتِہِ وَثَنَیْتُ رِجْلَیَّ فَطَفَرْتُ عَنِ النَّاقَۃِ، ثُمَّ إِنِّی رَبَطْتُ عَلَیْہَا شَرَفًا أَوْ شَرَفَیْنِیَعْنِی اسْتَبْقَیْتُ نَفْسِی،ثُمَّ إِنِّی عَدَوْتُ حَتّٰی أَلْحَقَہُ فَأَصُکَّ بَیْنَ کَتِفَیْہِ بِیَدَیَّ، قُلْتُ: سَبَقْتُکَ وَاللّٰہِ! أَوْ کَلِمَۃً نَحْوَہَا، قَالَ: فَضَحِکَ، وَقَالَ: إِنْ أَظُنُّ حَتّٰی قَدِمْنَا الْمَدِینَۃَ۔ (مسند احمد: ۱۶۶۵۴)
ایاس بن سلمہ بن اکوع اپنے والد سلمہ بن اکوع سے بیان کرتے ہیں انہوں نے کہا کہ حدیبیہ کے زمانہ میں ہم رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ہمراہ مدینہ منورہ آئے۔ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا غلام رباح ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ اور میں آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے اونٹ کو لے کر روانہ ہوئے۔ میں طلحہ بن عبیداللہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے گھوڑے پر سوار اسے اونٹ کے ساتھ دوڑانا چاہتا تھا۔ صبح منہ اندھیرے عبدالرحمن بن عیینہ فزاری نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے اونٹوں پر دھاوا بول دیا۔ ان کے چرواہے کو قتل کر دیا۔ وہ اور اس کے ساتھی جو گھوڑوں پر سوار تھے۔ اونٹوں کو بھگالے گئے۔ میں نے کہا اے رباح! تم اس گھوڑے پر سوار ہو کر جاؤ اور اسے طلحہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ تک پہنچا دو اور رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو جا کر اطلاع دو کہ ان کے جانوروں کو لوٹ لیا گیا ہے۔ اور میں نے خود ایک ٹیلے پر کھڑے ہو کر مدینہ کی طرف رخ کر کے تین مرتبہ یا صباحاہ کی ندا دی۔ اور تیر تلوار لے کر میں نے ان لوگوں کا پیچھا شروع کر دیا۔ تو میں تیر چلا چلا کر جہاں درخت زیادہ ہوتے ان کو زخمی کرتا اور جب کوئی گھڑ سوار میری طرف رخ کرتا تو میں کسی درخت کے پیچھے بیٹھ جاتا اور پھر تیر چلانا شروع کر دیتا کوئی بھی گھڑ سوار میری طرف رخ کرتا تو میں اس کے گھوڑے کو زخمی کر دیتا، میں ان پر تیر برساتا اور یہ رجز پڑھتا تھا۔ أَنَا ابْنُ الْأَکْوَعِ وَالْیَوْمُیَوْمُ الرُّضَّع (اور میں اکوع کا بیٹا ہوں آج کمینوں (کی ہلاکت) کا دن ہے) میں ان میں سے کسی سے ملتا اس پر تیر چلاتا میرا تیر اسے جا لگتا اور میں تیر کو اس کے کندھے میں پیوست کر دیتا اور میں کہتا۔ أَنَا ابْنُ الْأَکْوَعِ وَالْیَوْمُیَوْمُ الرُّضَّع (اور میں اکوع کا بیٹا ہوں آج کمینوں (کی ہلاکت) کا دن ہے)میں جب درختوں کے کسی جھنڈ میں ہوتا تو ان پر تیر وں کی بوچھاڑ کر دیتا۔ اور جب تنگ راستے آتے تو میں پہاڑ کے اوپر چڑھ جاتا اور ان پر پتھر لڑھکانے لگتا۔ ان کی اور میرییہی حالت رہی۔ میں ان کے پیچھے لگا رہا۔ اور رجز پڑھتا رہا۔ یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے لیے جتنے اونٹ پیدا کئے تھے میں ان کو دشمنوں سے چھڑوا کر ان کو پیچھے چھوڑتا گیا۔ اور میں ان پر تیر برساتا رہا یہاں تک کہ وہ اپنا وزن ہلکا کرنے کے لیے تیس سے زیادہ نیزے اور تیس سے زائد چادریں بھی پھینک گئے۔ وہ جو چیز بھی اس طرح پھینکتے جاتے میں ان پر بطور علامت پتھر رکھ جاتا اور ان اشیاء کو رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے راستے پر جمع کر تا گیا۔ جب دن اچھی طرح چڑھ آیا تو عیینہ بن بدر فزاری ان کی مدد کو آگیا۔ اس وقت وہ ایک تنگ راستے پر جا رہے تھے۔ میں پہاڑ کے اوپر چڑھ گیا۔ تو عیینہ نے ان سے کہا میں تمہارا کیسا براحال دیکھ رہا ہوں۔ وہ بولے یہ ساری مصیبت اس کی طرف سے آئی ہے۔ یہ صبح سے اب تک ہمارا پیچھا کر رہا ہے۔ اس نے ہمارا سارا سامان ہم سے لے کر اسے پیچھے چھوڑ آیا ہے۔ عیینہ نے کہا اسے یقینا معلوم ہے کہ پیچھے سے اس کے ساتھی آرہے ہیں۔ اگر یہ بات نہ ہوتی تو یہ تمہیں چھوڑ جاتا۔ تم میں سے کچھ لوگ اس کی طرف جائیں تو سہی۔ تو ان میں سے چار آدمی اس کی طرف جانے کے لیے اُٹھے اور پہاڑ پر چڑھ گئے۔ میں نے بلند آواز سے ان کو کہا کیا تم لوگ مجھے پہنچانتے ہو؟ وہ بولے بتاؤ تم کون ہو؟ میں نے کہا کہ میں اکوع کا بیٹا ہوں۔ اس ذات کی قسم جس نے محمد ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو بے انتہا عزت سے نوازا ہے تم میں سے کوئی بھی مجھے نہیں پکڑ سکتا۔ اور میں تم میں سے جسے پکڑنا چاہوں وہ میرے ہاتھوں سے نکل نہیں سکتا۔ ان میں سے ایک نے کہا بات تو ایسی ہی ہے سلمہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں کہ میں بڑے آرام سے اپنی جگہ بیٹھا رہا۔ یہاں تک کہ میں نے درختوں کے بیچ میں سے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے گھڑ سواروں کو آتے دیکھ لیا۔ اخرم اسدی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سب سے آگے تھے اور رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے گھڑ سوار ابو قتادہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ اس سے پیچھے تھے۔ اور ان سے پیچھے مقداد کندی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ تھے۔ یہ منظر دیکھ کر مشرکین تو دُم دبا کر بھاگ اُٹھے اور میں پہاڑ سے نیچے اتر کر اخرم ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے سامنے آیا اور ان کے گھوڑے کی باگ پکڑ کر میں نے کہا اخرم! ان لوگوں سے ذرا محتاط رہنا مجھے ڈر ہے کہ کہیں وہ آپ کو اچک نہ لیں۔ تم رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اور آپ کے اصحاب کے آنے تک ذرا رک جاؤ۔ تو اخرم ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا اے سلمہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ! اگر تم اللہ پر اور آخرت پر ایمان رکھتے ہو اور یقین رکھتے ہو کہ جنت اور دوزخ حق ہیں تو تم میرے اور شہادت کے درمیان رکاوٹ نہ بنو۔ سلمہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں ان کی بات سن کر میں نے ان کے گھوڑے کی باگ کو چھوڑ دیا۔ ان کا ٹکراؤ عبدالرحمن بن عیینہ سے ہو گیا۔ وہ ان پر الٹ الٹ کر حملے کرنے لگا۔ انہوں نے ایک دوسرے پر نیزے کے دو دو وار کئے اخرم ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے عبدالرحمن کے گھوڑے کی ٹانگوں کو زخمی کر دیا۔ اور عبدالرحمن نے ان کو نیزے کا وار کر کے شہید کر دیا۔ اس کے بعد عبدالرحمن اخرم ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے گھوڑے پر سوار ہو گیا۔ پھر ابو قتادہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی اس سے مڈ بھیڑ ہو گئی۔ انہوں نے بھی ایک دوسرے پر نیزے چلائے۔ ابو قتادہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کا گھوڑا تو زخمی ہو گیا تاہم انہوں نے عبدالرحمن کو قتل کر دیا۔ اور ابو قتادہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ اخرم ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ والے گھوڑے پر سوار ہو گئے۔ میں پھر دشمن کے پیچھے دوڑنے لگا۔ اور اس قدر آگے نکل گیا کہ مجھے نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے صحابہ کا غبار بھی دکھائی نہ دے رہا تھا اور دشمن غروب آفتاب سے ذرا پہلے قرد نامی ایک گھاٹی پر پہنچے جہاں کچھ پانی موجود تھا۔ انہوں نے وہاں سے پانی پینے کا ارادہ کیا۔ اسی دوران انہوں نے مجھے دیکھا کہ میں ان کے پیچھے پیچھے دوڑتا آرہا ہوں وہ وہاں سے روانہ ہو گئے اور تیزتیز دوڑتے پہاڑی تنگ راستے پر چل دئیے۔ اس پہاڑی راستے کا نام ثینیہ ذی بئر ہے۔ سورج غروب ہو چکا تھا۔ میر ا ایک مشرک سے ٹکراؤ ہوا میں نے اس پر تیر چلاتے ہوئے کہا: أَنَا ابْنُ الْأَکْوَعِ وَالْیَوْمُیَوْمُ الرُّضَّع (اور میں اکوع کا بیٹا ہوں آج کمینوں (کی ہلاکت) کا دن ہے)وہ بولا اکوع کی ماں اسے گم پائے۔ ( یعنی وہ مر جائے) صبح سے تو ہی ہمارا پیچھا کر رہا ہے؟ میں نے کہا اللہ کے دشمن ! ہاں میں ہی تم پر صبح سے تیر بر سا رہا ہوں۔ اور ساتھ ہی میں نے اس پر دوسرا تیر چھوڑا۔ دونوں تیر اس پر پیوست ہو گئے اور وہ لوگ مزید دو گھوڑے پیچھے چھوڑ گئے۔ میں ان دونوں گھوڑوں کو لیے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی طرف چل دیا۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم پانی کے اس ذی قرد چشمے پر تھے جہاں سے میں نے دشمنوں کو دوڑایا تھا۔ میں نے دیکھا کہ اللہ کے نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اپنے پانچ سو جان نثاروں سمیت وہاں تشریف فرما تھے۔ اور میں جو اونٹ پیچھے چھوڑ گیا تھا۔ بلال ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے ان میں سے ایک اونٹ کو ذبح کیا ہو اتھا اور وہ اس کا جگر اور کوہان رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے لیے بھون رہے تھے۔ میں رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں پہنچا اور عرض کیا اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مجھے اجازت ہو تو میں آپ کے ان ساتھیوں سے ایک سوآدمیوں کو لیجاؤں اور جا کر اندھیرے اندھیرے میں کفار پر حملہ کر دوں اور ان سب کو قتل کر دوں۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: سلمہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کیا تو یہ کام کرنے کے لیے تیار ہے؟ انہوں نے کہا اس ذات کی قسم جس نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو عزت واکرام سے نوازا ہے۔ میں اس کام کے لیے تیار ہوں۔ یہ سن کر رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اس قدر مسکرائے کہ آگ کی روشنی میں میں نے آپ کی داڑھ مبارک نمایاں دیکھی آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اس وقت غطفان کے علاقے میں ان کی ضیافت ہو رہی ہے۔ بعد میں بنو غطفان سے ایک آدمی آیا اس نے بتلایا کہ وہ لوگ فلاں غطفانی کے پاس سے گزرے اس نے ان کے لیے ایک اونٹ ذبح کیا۔ جب وہ اس کا چمڑا اتار رہے تھے تو انہوں نے دور غبار اڑتے دیکھا تو وہ اونٹ کو چھوڑ کر بھاگ کھڑے ہوئے۔ جب صبح ہوئی تو رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا آج ہمارے گھڑ سواروں میں سب سے افضل ابوقتادہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ہیں اور پیدل لوگوں میں سب سے افضل سلمہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ہیں تو رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مجھے پیدل اور گھڑ سوار دونوں قسم کے لوگوں سے حصہ دیا۔ پھر مدینہ منورہ کی طرف واپس ہوئے تو آپ نے اپنی عضباء اونٹنی پر مجھے بھی اپنے پیچھے سوار کر لیا جب ہمارے مدینہ منورہ پہنچنے میں چاشت کے بقدر وقت باقی رہ گیا تو لوگوں میں ایک انصاری شخص تھا جو بہت تیز رفتار تھا۔ کوئی شخص اس کامقابلہ کر کے اس سے آگے نہ نکل سکتا تھا۔ وہ آوازیں دینے لگا کوئی میرے ساتھ دوڑ کا مقابلہ کرنے والا ہے کوئی ہے جو مدینہ منورہ تک میرے ساتھ دوڑ لگائے۔ اس نے یہ بات کئیمرتبہ دہرائی۔ میں رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ہمراہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی سواری پر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پیچھے سوار تھا۔ میں نے اس سے کہا کیا تم کسی معزز کی عزت نہیں کر سکتے اور نہ کسی صاحبِ شرف سے ڈرتے ہو؟ وہ بولا میں رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے سوا سب کو اس مقابلے کی دعوت دے رہا ہوں تو میں نے عرض کیا اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں۔ مجھے اجازت دیجئے میں اس کے ساتھ دوڑ لگاؤں۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا تمہاری مرضی، میں نے عرض کیا میں اس کے مقابلے میں جاتا ہوں۔ وہ آدمی اپنی سواری سے کود کر نیچے آگیا۔ اور میں نے بھی اپنی ٹانگوں کو حرکت دی اور اونٹنی سے چھلانگ لگا دی۔ پھر میں ایک دو منزل تک جان بوجھ کر آہستہ دوڑاتاکہ اپنا سانس بچا لوں اور سانس نہ چڑھ جائے۔ اس کے بعد میں دوڑ کر اس تک پہنچا اور پیچھے سے اس کے کندھوں کے درمیان ہاتھ مار کر کہا اللہ کی قسم میں تجھ سے آگے نکل گیا۔ میں نے یہی لفظ کہے یا اس سے ملتے جلتے الفاظ کہے۔ یہ سن کر وہ ہنس پڑا اور بولا میرا بھییہی خیال ہے یہاں تک کہ ہم مدینہ منورہ پہنچ گئے۔
Musnad Ahmad, Hadith(10810)
Background
Arabic

Urdu

English