۔ (۱۰۸۱۲)۔ حَدَّثَنَا عِکْرِمَۃُ قَالَ: حَدَّثَنِی إِیَاسُ بْنُ سَلَمَۃَ، قَالَ: أَخْبَرَنِی أَبِی، قَالَ:بَارَزَ عَمِّییَوْمَ خَیْبَرَ مَرْحَبٌ الْیَہُودِیُّ، فَقَالَ مَرْحَبٌ: قَدْ عَلِمَتْ خَیْبَرُ أَنِّی مَرْحَبُ، شَاکِی السِّلَاحِ بَطَلٌ مُجَرَّبُ، إِذَا الْحُرُوبُ أَقْبَلَتْ تَلَہَّبُ، فَقَالَ عَمِّی عَامِرٌ: قَدْ عَلِمَتْ خَیْبَرُ أَنِّی عَامِرُ، شَاکِی السِّلَاحِ بَطَلٌ مُغَامِرُ، فَاخْتَلَفَا ضَرْبَتَیْنِ فَوَقَعَ سَیْفُ مَرْحَبٍ فِی تُرْسِ عَامِرٍ، وَذَہَبَ یَسْفُلُ لَہُ، فَرَجَعَ السَّیْفُ عَلٰی سَاقِہِ، قَطَعَ أَکْحَلَہُ، فَکَانَتْ فِیہَا نَفْسُہُ، قَالَ سَلَمَۃُ بْنُ الْأَکْوَعِ: لَقِیتُ نَاسًا مِنْ صَحَابَۃِ النَّبِیِّ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فَقَالُوا: بَطَلَ عَمَلُ عَامِرٍ قَتَلَ نَفْسَہُ، قَالَ سَلَمَۃُ: فَجِئْتُ إِلٰی نَبِیِّ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم أَبْکِی، قُلْتُ: یَارَسُولَ اللّٰہِ! بَطَلَ عَمَلُ عَامِرٍ، قَالَ: ((مَنْ قَالَ
ذَاکَ؟)) قُلْتُ: نَاسٌ مِنْ أَصْحَابِکَ، فَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ((کَذَبَ مَنْ قَالَ ذَاکَ، بَلْ لَہُ أَجْرُہُ مَرَّتَیْنِ۔)) إِنَّہُ حِینَ خَرَجَ إِلٰی خَیْبَرَ جَعَلَ یَرْجُزُ بِأَصْحَابِ رَسُولِ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وَفِیہِمُ النَّبِیُّ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یَسُوقُ الرِّکَابَ، وَہُوَیَقُولُ: ((تَالَلَّہِ! لَوْلَا اللّٰہُ مَا اہْتَدَیْنَا، وَلَا تَصَدَّقْنَا وَلَا صَلَّیْنَا، إِنَّ الَّذِینَ قَدْ بَغَوْا عَلَیْنَا، إِذَا أَرَادُوا فِتْنَۃً أَبَیْنَا، وَنَحْنُ عَنْ فَضْلِکَ مَا اسْتَغْنَیْنَا، فَثَبِّتِ الْأَقْدَامَ إِنْ لَاقَیْنَا، وَأَنْزِلَنْ سَکِینَۃً عَلَیْنَا۔)) فَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ((مَنْ ہٰذَا؟)) قَالَ: عَامِرٌ، یَا رَسُولَ اللّٰہِ، قَالَ: ((غَفَرَ لَکَ رَبُّکَ۔)) قَالَ: وَمَا اسْتَغْفَرَ لِإِنْسَانٍ قَطُّ یَخُصُّہُ إِلَّا اسْتُشْہِدَ، فَلَمَّا سَمِعَ ذَلِکَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ قَالَ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! لَوْ مَتَّعْتَنَا بِعَامِرٍ فَقَدِمَ فَاسْتُشْہِدَ، قَالَ سَلَمَۃُ: ثُمَّ إِنَّ نَبِیَّ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم أَرْسَلَنِی إِلٰی عَلِیٍّ، فَقَالَ: ((لَأُعْطِیَنَّ الرَّایَۃَ الْیَوْمَ رَجُلًا یُحِبُّ اللّٰہَ وَرَسُولَہُ، أَوَیُحِبُّہُ اللّٰہُ وَرَسُولُہُ۔)) قَالَ: فَجِئْتُ بِہِ أَقُودُہُ أَرْمَدَ فَبَصَقَ نَبِیُّ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فِی عَیْنِہِ، ثُمَّ أَعْطَاہُ الرَّایَۃَ، فَخَرَجَ مَرْحَبٌ یَخْطِرُ بِسَیْفِہِ، فَقَالَ: قَدْ عَلِمَتْ خَیْبَرُ أَنِّی مَرْحَبُ، شَاکِی السِّلَاحِ بَطَلٌ مُجَرَّبُ، إِذَا الْحُرُوبُ أَقْبَلَتْ تَلَہَّبُ، فَقَالَ عَلِیُّ بْنُ أَبِی طَالِبٍ کَرَّمَ اللّٰہُ وَجْہَہُ: أَنَا الَّذِی سَمَّتْنِی أُمِّی حَیْدَرَہْ، کَلَیْثِ غَابَاتٍ کَرِیہِ الْمَنْظَرَہْ، أُوفِیہِمُ بِالصَّاعِ کَیْلَ السَّنْدَرَہْ، فَفَلَقَ رَأْسَ مَرْحَبٍ بِالسَّیْفِ، وَکَانَ الْفَتْحُ عَلَییَدَیْہِ۔ (مسند احمد: ۱۶۶۵۳)
سیدنا سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ مرحب یہودی نے خیبر کے دن میرے چچا ( سیدنا عامر ) کو قابلہ کا چیلنج دیتے ہوئے کہا:
قَدْ عَلِمَتْ خَیْبَرُ اَنِّيْ مَرْحَبٗ
شَاکِيْ السَّلَاحِ بَطَلٌ مُجَرَّبٗ
اِذَا الْحُرُوْبُ اَقْبَلَتْ تَلَھَّبٗ
خیبر بخوبی جانتا ہے کہ میں مرحب ہوں۔ ہتھیار بند، سورما اور منجھا ہوا ہوں۔ جب لڑائیاں بھڑک اٹھتی ہیں تو میں متوجہ ہوتا ہوں
اس کے مقابلے کے لیے میرے چچا عامر رضی اللہ عنہ نکلے اور کہا:
قَدْ عَلِمَتْ خَیْبَرُ اَنِّيْ عَامِرٗ
شَاکِيْ السَّلَاحِ بَطَلٌ مُغَامِرٗ
خیبر اچھی طرح جانتا ہے کہ میں عامر ہوں۔ مکمل طور پر تیار ہوں، دلیر ہوں، جان کی بازی لگانے والا ہوں
دونوں نے ایک دوسرے پر ایک ایک وار کیا، مرحب کی تلوار عامر کی ڈھال پر جا لگی اور عامر رضی اللہ عنہ نیچے جھک کر اس پر حملہ آور ہوا، لیکن ان کی اپنی ڈھال اپنی پنڈلی کی بڑی رگ پر جا
لگی، جس سے رگ کٹ گئی اور اسی کی وجہ سے ان کا انتقال ہو گیا۔ سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میری بعض لوگوں سے ملاقات ہوئی تو وہ کہنے لگے کہ عامر رضی اللہ عنہ کے اعمال ضائع ہو گئے، اس نے خود کشی کی ہے، یہ سن کر میں روتا ہوا نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں آیا اور عرض کیا: اے اللہ کے رسول ! عامر کے اعمال تو ضائع ہو گئے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: یہ کس نے کہا؟ میں نے عرض کیا: آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعض صحابہ نے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جس نے بھییہ کہا غلط کہا، بلکہ اس کے لیے تو دو گنا اجر ہے۔ ( سلمہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ) عامر رضی اللہ عنہ جب خیبر کی طرف روانہ ہوئے تو وہ اصحابِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ مل کر رجز پڑھتے جاتے تھے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی ساتھ تھے اور عامر رضی اللہ عنہ حدی خوانی کرتے ہوئے یوں کہہ رہے تھے۔
تَالَلَّہِ! لَوْلَا اللّٰہُ مَا اہْتَدَیْنَا
وَلَا تَصَدَّقْنَا وَلَا صَلَّیْنَا
إِنَّ الَّذِینَ قَدْ بَغَوْا عَلَیْنَا
إِذَا أَرَادُوا فِتْنَۃً أَبَیْنَا
وَنَحْنُ عَنْ فَضْلِکَ مَا اسْتَغْنَیْنَا
فَثَبِّتِ الْأَقْدَامَ إِنْ لَاقَیْنَا
وَأَنْزِلَنْ سَکِینَۃً عَلَیْنَا
اللہ کی قسم! اگر اللہ نہ ہوتا تو ہم نہ صدقے کرتے اور نہ نمازیں پڑھتے، بے شک جن لوگوں نے ہم پر زیادتی کی جب انہوں نے سرکشی کا ارادہ کیا تو ہم نے اسے قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ اور ہم تیرے فضل سے مستغنی نہیں۔ اگر ہماری دشمن سے مڈ بھیڑ ہو تو ہمیں ثابت قدم رکھنا، اور ہم پر سکون نازل فرمانا۔
یہ سن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: یہ کون ہے؟ اس نے کہ: اللہ کے رسول! میں عامر ہوں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: تمہارا رب تمہاری مغفرت فرمائے۔ سیدنا سلمہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: ایسے مواقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جس کسی کو مخصوص طور پر دعائے مغفرت دی، وہ ضرور ہی شہید ہوا۔ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بات سنی تو عرض کیا: اللہ کے رسول ! کاش آپ ہمیں عامر سے مزید متمتع ہونے دیتے،یہ آگے بڑھے اور شہادت سے ہم کنار ہو گئے، سلمہ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے، پھر اللہ کی نبی نے مجھے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی طرف بھیجا اور فرمایا: آج میں یہ جھنڈا ایک ایسے شخص کو دوں گا، جو اللہ اور اس کے رسول سے محبت کرتا ہے اور اللہ اور اس کا رسول بھی اس سے محبت کرتا ہے۔ ان کی آنکھیں دکھ رہی تھیں، میں انہیں ساتھ لے کر آیا، اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کی آنکھ میں لعاب مبارک لگایا تو وہ اسی وقت ٹھیک ہو گئے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کو جھنڈا تھمایا،مرحبیہودی تلوار لہراتا ہوا اور یہ رجز پڑھتا ہوا سامنے آیا۔
فَقَدْ عَلِمَتْ خَیْبَرُ أَنِّیْ مَرْحَبٗ
شَاکِیْ السَّلَاحِ بَطَلٌ مُجَرَّبٗ
إِذَا الْحُرُوْبُ أَقْبَلَتْ تَلَھَّبٗ
خیبر بخوبی جانتا ہے کہ میں مرحب ہوں
ہتھیار بندہوں، سورماہوں اور منجھا ہوا ہوں
جب لڑائیاں بھڑک اٹھتی ہیں تو میں متوجہ ہوتا ہوں
اس کے جواب میں سیّدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
أَنَا الَّذِیْ سَمَّتْنِیْ أُمِّیْ حَیْدَرَہ
کَلَیْثِ غَابَاتٍ کَرِیْہِ الْمَنْظَرَہ
أُوْفِیْھِمْ بِالصَّاعِ کَیْلَ السَّنْدَرَہ
میں وہ ہوں جس کا نام میری ماں نے حیدر رکھا
جنگلوں کا شیر ہوں، ہولناک منظر والا ہوں
میں انہیں صاع کے بدلے نیزے کی ناپ پوری کر دوں گا۔
چنانچہ انہوں نے تلوار سے مرحب کا سر پھوڑ ڈالا اور انہی کے ہاتھوں خیبر فتح ہوا۔
Musnad Ahmad, Hadith(10812)