۔ (۱۰۸۳۶)۔ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ رَسُولَ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لَمَّا نَزَلَ مَرَّ الظَّہْرَانِ فِی عُمْرَتِہِ، بَلَغَ أَصْحَابَ رَسُولِ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم أَنَّ قُرَیْشًا تَقُولُ: مَا یَتَبَاعَثُونَ مِنَ الْعَجَفِ، فَقَالَ أَصْحَابُہُ: لَوِ انْتَحَرْنَا مِنْ ظَہْرِنَا، فَأَکَلْنَا مِنْ لَحْمِہِ، وَحَسَوْنَا مِنْ مَرَقِہِ، أَصْبَحْنَا غَدًا حِینَ نَدْخُلُ عَلَی الْقَوْمِ، وَبِنَا جَمَامَۃٌ، قَالَ: ((لَا تَفْعَلُوا وَلٰکِنْ اجْمَعُوا لِی مِنْ
أَزْوَادِکُمْ۔)) فَجَمَعُوا لَہُ وَبَسَطُوا الْأَنْطَاعَ، فَأَکَلُوا حَتّٰی تَوَلَّوْا وَحَثَا کُلُّ وَاحِدٍ مِنْہُمْ فِی جِرَابِہِ، ثُمَّ أَقْبَلَ رَسُولُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حَتّٰی دَخَلَ الْمَسْجِدَ وَقَعَدَتْ قُرَیْشٌ نَحْوَ الْحِجْرِ، فَاضْطَبَعَ بِرِدَائِہِ ثُمَّ قَالَ: ((لَا یَرَی الْقَوْمُ فِیکُمْ غَمِیزَۃً۔)) فَاسْتَلَمَ الرُّکْنَ ثُمَّ دَخَلَ حَتّٰی إِذَا تَغَیَّبَ بِالرُّکْنِ الْیَمَانِی مَشٰی إِلَی الرُّکْنِ الْأَسْوَدِ، فَقَالَتْ قُرَیْشٌ: مَا یَرْضَوْنَ بِالْمَشْیِ أَنَّہُمْ لَیَنْقُزُونَ نَقْزَ الظِّبَائِ فَفَعَلَ ذٰلِکَ ثَلَاثَۃَ أَطْوَافٍ، فَکَانَتْ سُنَّۃً، قَالَ أَبُو الطُّفَیْلِ: وَأَخْبَرَنِی ابْنُ عَبَّاسٍ: أَنَّ النَّبِیَّ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فَعَلَ ذٰلِکَ فِی حَجَّۃِ الْوَدَاعِ۔ (مسند احمد: ۲۷۸۲)
ابو طفیل سے مروی ہے کہ سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ عمرۂ قضا ء کے موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب مرالظہران کے مقام پر پہنچے تو صحابہ کو یہ بات پہنچی کہ قریش مسلمانوں کے جسموں کے نحیف ہونے کی باتیں کر رہے ہیں، پس صحابہ نے گزارش کی اگر ہم اپنے کچھ اونٹوں کو ذبح کر کے ان کا گوشت کھائیں اور شوربا یعنییخنی بنا کر پئیں تو جب ہم ان کے سامنے جائیں تو ہم خوب سیراب اور سیر نظر آئیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: تم ایسے نہ کرو بلکہ تم اپنا زادِ راہ ایک جگہ میں جمع کرو۔ صحابہ نے کھانے کا سارا سامان ایک جگہ جمع کر دیا اور چمڑے کے دستر خوان بچھا دئیے اور سب نے کھانا کھایا،یہاں تک کہ کھا کھا کر وہ اُٹھ گئے اور ہر ایک نے اپنے اپنے تھیلے بھی کھانے سے بھر لیے، اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مسجد حرام میں آئے، جبکہ قریشی حجر یعنی حطیم کی جانب بیٹھے ہوئے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی چادر سے اضطباع کیا۔ (یعنی طواف کے وقت چادر کا درمیا ن والا حصہ دائیں کندھے کے نیچے بغل سے نکال کر چادر کے دونوں سروں کو بائیں کندھے پر ڈال دیا اور اس طرح دایاں کندھا ننگا ہو گیا، اس عمل کو اضطباع کہتے ہیں) آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: یہ قریشی لوگ تمہارے اندر کمزوری محسوس نہ کریں۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حجر اسود کا استلام کیا اور (رمل کرتے ہوئے) طواف شروع کیا،یہاں تک کہ جب آپ رکن یمانی کی جانب قریش کی آنکھوں سے اوجھل ہوئے تو حجرِاسود تک عام رفتار سے چل کر گئے، قریش نے ان کی کیفیات دیکھ کر کہا کہ یہ لوگ طواف کرتے ہوئے عام رفتار سے چلنے پر مطمئن نہیں، بلکہ اچھل اچھل کر اور کود کود کر طواف کرتے ہیں، جیسے ہرن اچھلتے کودتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تین چکروں میں ایسے ہی رمل کیا، (رکن یمانی اور حجر اسود کے درمیان عام چال چلے)، پس یہ عمل سنت ٹھہرا، ابو طفیل کہتے ہیں: سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ نے مجھے بتلایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ عمل حجۃ الوداع میں (بھی) کیا تھا۔
Musnad Ahmad, Hadith(10836)