Blog
Books



۔ (۱۰۸۵۲)۔ حَدَّثَنَا بَہْزٌ وَہَاشِمٌ قَالَا: حَدَّثَنَا سُلَیْمَانُ بْنُ الْمُغِیرَۃِ عَنْ ثَابِتٍ، قَالَ ہَاشِمٌ: قَالَ: حَدَّثَنِی ثَابِتٌ الْبُنَانِیُّ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ رَبَاحٍ، قَالَ: وَفَدَتْ وُفُودٌ إِلٰی مُعَاوِیَۃَ أَنَا فِیہِمْ وَأَبُو ہُرَیْرَۃَ فِی رَمَضَانَ، فَجَعَلَ بَعْضُنَا یَصْنَعُ لِبَعْضٍ الطَّعَامَ، قَالَ: وَکَانَ أَبُو ہُرَیْرَۃَیُکْثِرُ مَا یَدْعُونَا، قَالَ ہَاشِمٌ، یُکْثِرُ أَنْ یَدْعُوَنَا إِلَی رَحْلِہِ، قَالَ: فَقُلْتُ: أَلَا أَصْنَعُ طَعَامًا فَأَدْعُوَہُمْ إِلَی رَحْلِی، قَالَ: فَأَمَرْتُ بِطَعَامٍ یُصْنَعُ وَلَقِیتُ أَبَا ہُرَیْرَۃَ مِنَ الْعِشَائِ، قَالَ: قُلْتُ: یَا أَبَا ہُرَیْرَۃَ الدَّعْوَۃُ عِنْدِی اللَّیْلَۃَ، قَالَ: أَسَبَقْتَنِی؟ قَالَ ہَاشِمٌ: قُلْتُ: نَعَمْ، قَالَ: فَدَعَوْتُہُمْ فَہُمْ عِنْدِی، قَالَ أَبُو ہُرَیْرَۃَ: أَلَا أُعْلِمُکُمْ بِحَدِیثٍ مِنْ حَدِیثِکُمْیَا مَعَاشِرَ الْأَنْصَارِ؟ قَالَ: فَذَکَرَ فَتْحَ مَکَّۃَ، قَالَ: أَقْبَلَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَدَخَلَ مَکَّۃَ، قَالَ: فَبَعَثَ الزُّبَیْرَ عَلٰی إِحْدَی الْمُجَنِّبَتَیْنِ وَبَعَثَ خَالِدًا عَلَی الْمُجَنِّبَۃِ الْأُخْرٰی، وَبَعَثَ أَبَا عُبَیْدَۃَ عَلَی الْحُسَّرِ، فَأَخَذُوا بَطْنَ الْوَادِی وَرَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فِی کَتِیبَتِہِ، قَالَ: وَقَدْ وَبَّشَتْ قُرَیْشٌ أَوْبَاشَہَا، قَالَ: فَقَالُوا: نُقَدِّمُ ہٰؤُلَائِ فَإِنْ کَانَ لَہُمْ شَیْئٌ کُنَّا مَعَہُمْ، وَإِنْ أُصِیبُوا أَعْطَیْنَا الَّذِی سُئِلْنَا، قَالَ: فَقَالَ أَبُو ہُرَیْرَۃَ: فَنَظَرَ فَرَآنِی، فَقَالَ: ((یَا أَبَا ہُرَیْرَۃَ!)) فَقُلْتُ: لَبَّیْکَ رَسُولَ اللّٰہِ، قَالَ: فَقَالَ: ((اہْتِفْ لِی بِالْأَنْصَارِ وَلَا یَأْتِینِی إِلَّا أَنْصَارِیٌّ۔)) فَہَتَفْتُ بِہِمْ فَجَائُ وْا فَأَطَافُوا بِرَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقَالَ: ((تَرَوْنَ إِلٰی أَوْبَاشِ قُرَیْشٍ وَأَتْبَاعِہِمْ۔)) ثُمَّ قَالَ: بِیَدَیْہِ إِحْدَاہُمَا عَلَی الْأُخْرَی حَصْدًا حَتّٰی تُوَافُونِی بِالصَّفَا، قَالَ: فَقَالَ أَبُو ہُرَیْرَۃَ: فَانْطَلَقْنَا فَمَا یَشَائُ أَحَدٌ مِنَّا أَنْ یَقْتُلَ مِنْہُمْ مَا شَائَ، وَمَا أَحَدٌ یُوَجِّہُ إِلَیْنَا مِنْہُمْ شَیْئًا، قَالَ: فَقَالَ أَبُو سُفْیَانَ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! أُبِیحَتْ خَضْرَائُ قُرَیْشٍ لَا قُرَیْشَ بَعْدَ الْیَوْمِ، قَالَ: فَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((مَنْ أَغْلَقَ بَابَہُ فَہُوَ آمِنٌ، وَمَنْ دَخَلَ دَارَ أَبِی سُفْیَانَ فَہُوَ آمِنٌ۔))، قَالَ: فَغَلَّقَ النَّاسُ أَبْوَابَہُمْ، قَالَ: فَأَقْبَلَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم إِلَی الْحَجَرِ فَاسْتَلَمَہُ ثُمَّ طَافَ بِالْبَیْتِ، قَالَ: وَفِییَدِہِ قَوْسٌ أَخَذَ بِسِیَۃِ الْقَوْسِ، قَالَ: فَأَتٰی فِی طَوَافِہِ عَلٰی صَنَمٍ إِلٰی جَنْبٍ یَعْبُدُونَہُ قَالَ: فَجَعَلَ یَطْعَنُ بِہَا فِی عَیْنِہِ وَیَقُولُ: {جَاء َ الْحَقُّ وَزَہَقَ الْبَاطِلُ} قَالَ: ثُمَّ أَتَی الصَّفَا، فَعَلَاہُ حَیْثُیُنْظَرُ إِلَی الْبَیْتِ فَرَفَعَ یَدَیْہِ فَجَعَلَ یَذْکُرُ اللّٰہَ بِمَا شَائَ أَنْ یَذْکُرَہُ وَیَدْعُوہُ، قَالَ: وَالْأَنْصَارُ تَحْتَہُ، قَالَ: یَقُولُ بَعْضُہُمْ لِبَعْضٍ: أَمَّا الرَّجُلُ فَأَدْرَکَتْہُ رَغْبَۃٌ فِی قَرْیَتِہِ وَرَأْفَۃٌ بِعَشِیرَتِہِ، قَالَ أَبُو ہُرَیْرَۃَ: وَجَائَ الْوَحْیُ، وَکَانَ إِذَا جَائَ لَمْ یَخْفَ عَلَیْنَا، فَلَیْسَ أَحَدٌ مِنَ النَّاسِ یَرْفَعُ طَرْفَہُ إِلٰی رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم حَتّٰییُقْضٰی، قَالَ ہَاشِمٌ: فَلَمَّا قُضِیَ الْوَحْیُ رَفَعَ رَأْسَہُ ثُمََ قَالَ: ((یَا مَعَاشِرَ الْأَنْصَارِ! أَقُلْتُمْ أَمَّا الرَّجُلُ فَأَدْرَکَتْہُ رَغْبَۃٌ فِی قَرْیَتِہِ وَرَأْفَۃٌ بِعَشِیرَتِہِ۔)) قَالُوا: قُلْنَا ذٰلِکَ یَا رَسُولَ اللّٰہِ! قَالَ: ((فَمَا اسْمِی إِذًا کَلَّا إِنِّی عَبْدُ اللّٰہِ وَرَسُولُہُ ہَاجَرْتُ إِلَی اللّٰہِ وَإِلَیْکُمْ، فَالْمَحْیَا مَحْیَاکُمْ وَالْمَمَاتُ مَمَاتُکُمْ۔))، قَالَ: فَأَقْبَلُوا إِلَیْہِیَبْکُونَ وَیَقُولُونَ: وَاللّٰہِ! مَا قُلْنَا الَّذِی قُلْنَا إِلَّا الضِّنَّ بِاللّٰہِ وَرَسُولِہِ، قَالَ: فَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((فَإِنَّ اللّٰہَ وَرَسُولَہُ یُصَدِّقَانِکُمْ وَیَعْذُرَانِکُمْ۔))۔ (مسند احمد: ۱۰۹۶۱)
عبداللہ بن رباح سے مروی ہے کہ سیّدنا معاویہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی خدمت میں رمضان کے مہینہ میں کئی وفود آئے میں بھی ان میں شامل تھا ہم ایک کو کھانے کے لیے بلاتے تھے۔ سیّدنا ابوہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ اکثر وبیشتر ہمیں اپنے گھر بلا لیا کرتے تھے۔ تو میں نے سوچا کہ کیوں نہ میں بھی کھانا تیار کر وں اور ان حضرات کو اپنے پاس آنے کی دعوت دوں؟ چنانچہ میں نے کھانا تیار کرنے کا حکم دیا۔ عشاء کے وقت میری سیّدنا ابوہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے ملاقات ہوئی تو میں نے عرض کیا ابوہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ آج رات میرے ہاں دعوت ہے؟ وہ بولے تم تو مجھ پر سبقت لے گئے۔ میں نے عرض کیا جی ہاں! میں نے ان کو بلایا۔ وہ لوگ میرے ہاں تشریف لے آئے۔ ابوہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ فرمانے لگے اے انصاریو! کیا میں تمہیں تم سے متعلقہ ایک بات نہ سناؤں؟ پھر انہوں نے فتح مکہ کا ذکر کیا کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم تشریف لائے۔ مکہ مکرمہ میں داخل ہوئے آپ نے زبیر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو لشکر کے داہنے یا بائیں طرف والے ایکحصے پر اور خالد بن ولید کو دوسرے حصے پر اور ابو عبیدہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو ان لوگوں پر امیر مقرر کیا جو زرہ پوش نہ تھے۔ ان حضرات نے بطن الوادی والا راستہ اختیار کیا۔ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اپنے دستہ میں تھے۔ قریش نے بھی بہت سے قبائل کو جمع کر لیا تھا۔ لوگوں نے کہا کہ ہم ان کو آگے آگے جانے دیں۔ اگر انہیں کچھ ملا تو ہم بھی ساتھ ہی ہوں گے۔ اور اگر ان پر حملہ ہوا تو ہم سے جو مطالبہ کیا جائے گا۔ دے دیں گے۔ ابوہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مجھے دیکھ کر آواز دی اور فرمایا ابوہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ! میں نے عرض کیا اللہ کے رسول! میں حاضر ہوں۔ فرمایا: انصار کو میری طرف بلاؤ، اور یاد رکھو صرف انصاری ہی میرے پاس آئیں۔ میں نے انصار کو پکارا تو وہ آگئے۔ اور انہوں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے گرد گھیرا ڈال لیا۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تم قریش کے قبائل اور لوگوں کو دیکھ رہے ہو؟ آپ نے اپنے ایک ہاتھ کو دوسرے پر رکھ کر یوں اشارہ کیا کہ ان کو نیست ونابود کر کے میرے پاس کوہِ صفا پر آجاؤ۔ ابوہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں ہم وہاں سے چل دئیے۔ اور ہم میں سے ہر ایک نے ان میں سے جتنے آدمیوں کو قتل کرنا چاہا قتل کیا۔ ان میں سے کسی نے بھی ہم سے تعرض نہ کیا۔ ابو سفیان نے کہا اے اللہ کے رسول! قریش کی جماعتوں کو تو قتل کر دیا گیا۔ یہی صورت رہی تو آج کے بعد کوئی قریشی باقی نہ رہے گا۔ تو رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا:جو کوئی اپنے گھر کا دروازہ بند کر لے اسے امان ہے، اور جو ابو سفیان کے گھر میں چلا جائے اسے بھی امان ہے، چنانچہ لوگوں نے اپنے گھروں کے دروازے بند کر لئے۔ اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم حجر اسود کے پاس آئے۔ آپ نے اسے بوسہ دیا اور پھر بیت اللہ کا طواف کیا۔ آپ کے ہاتھ میں کمان تھی۔ آپ نے کمان کا ایک کنارہ پکڑا ہوا تھا طواف کے دوران آپ بیت اللہ کی ایک جانب میں پڑے ایک بت کے پاس پہنچے وہ لوگ اس کی پوچا کیا کرتے تھے۔ آپ اپنی کمان اس بت کی آنکھ میں مارنے لگے اور فرمایا {جَاء َ الْحَقُّ وَزَہَقَ الْبَاطِلُ} حق آگیا اور باطل دم دبا کر بھا گ گیا۔ (سورۂ بنی اسرائیل: ۸۱) اس کے بعد آپ کوہ صفا پر گئے اور اس کے اوپر چڑھ گئے یہاں تک کہ آپ کو بیت اللہ دکھائی دینے لگا آپ ہاتھ اُٹھا کر اللہ کا ذکر اور دعا کرتے رہے۔ اور انصار آپ کے سامنے نیچے کھڑے تھے۔ ان میں سے بعض ایک دوسرے سے کہنے لگے اس آدمی کو( یعنی رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو) اپنے شہر کی اور اپنے خاندان کی رغبت اور یاد آگئی ہے۔ وہیں پر آپ پر وحی کا نزول شروع ہو گیا۔ جب آپ پر وحی کا نزول شروع ہوتا تو ہمیں پتہ چل جاتا تھا۔ انقطاعِ وحی تک کوئی بھی رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی طرف نظر اُٹھا کر نہ دیکھتا تھا جب وحی کا سلسلہ منقطع ہواتو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اپنا سر اُٹھا کر فرمایا: اے انصار! تم نے کہا ہے کہ اسے اپنے شہر کی رغبت اور خاندان کی محبت نے آلیا ہے۔ وہ بولے یا رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم واقعی ہم نے اس قسم کی باتیں کی ہیں۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اگر ایسا ہو تو پھر میرا نام کیا ہو گا؟ خبردار! میں اللہ کا بندہ اور اس کا رسول ہوں۔ میں نے اللہ کی رضا کی خاطر تمہاری طرف ہجرت کی ہے۔ میرا جینا مرنا تمہارے ساتھ ہے۔ تو انصار بلکتے ہوئے آپ کی طرف بڑھے اور کہنے لگے اللہ کی قسم ہم نے جو باتیں کی ہیں وہ محض اللہ اور اس کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ شدید محبت کی وجہ سے کی ہیں مبادا کہ آپ ہمیں چھوڑ کر مکہ واپس آجائیں۔ تو رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اللہ اور اس کا رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم تمہاری باتوں کی تصدیق کرتے اور تمہاری معذرت قبول کرتے ہیں۔
Musnad Ahmad, Hadith(10852)
Background
Arabic

Urdu

English