سیدہ اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ذی طوی میں قیام کیا تو ابو قحافہ نے اپنی سب سے چھوٹی بچی سے کہا: بیٹی! تم مجھے جبل ابی قبیس پر لے چلو، ان دنوں وہ نابینا ہو چکے تھے، وہ بیان کرتی ہے کہ میں ان کو پہاڑ پر لے گئی۔ انھوں نے کہا: بیٹی تم کیا دیکھ رہی ہو؟ بیٹی نے کہا: میں ایک اکٹھا لشکر دیکھ رہی ہوں، انہوں نے کہا: یہ گھوڑے ہیں، اس نے کہا: میں ایک آدمی کو دیکھ رہی ہوں جوا ن لشکروں میں آگے پیچھے دوڑتا پھر رہا ہے۔ انھوں نے کہا: بیٹی! یہ آدمی گھڑ سواروں کو ہدایات دے رہا ہے۔ پھر اللہ کی قسم! دیکھا کہ لشکر بکھر گیا ہے، انھوں نے کہا:اللہ کی قسم تب تو گھوڑے دوڑ پڑے ہیں۔ تم جلدی سے مجھے گھر لے چلو، میں انہیں ساتھ لئے پہاڑ سے نیچے اتر آئی، وہ ابھی گھر تک نہ پہنچے تھے کہ ان کی گھڑ سواروں سے ملاقات ہو گئی۔ اس لڑکی کی گردن میں چاندی کا ایک ہار تھا، ایک آدمی نے اسے پکڑ کر اس کی گردن سے اتار لیا، جب اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مکہ مکرمہ آکر مسجد حرام میں داخل ہوئے تو سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ اپنے والد کا ہاتھ تھامے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں لائے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کو اس طرح آتے دیکھا تو فرمایا: آپ نے بزرگ کو گھر میں ہی رہنے دیا ہوتا،میں خود ان کے ہاں چلا جاتا۔ لیکن سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: یا رسول اللہ! آپ کے ان کی طرف چل کر جانے کی نسبت وہ اس بات کے زیادہ حق دار ہیں کہ وہ آپ کی طرف چل کر آئیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ابو قحافہ رضی اللہ عنہ کو اپنے سامنے بٹھا لیا اور ان کے سینے پر ہاتھ پھیر کر فرمایا: اسلام میں آجاؤ۔ پس انہوں نے اسلام قبول کر لیا۔ جب سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ اپنے والد کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں لائے تھے تو ان کے بال بڑھاپے کی وجہ سے ثغامہ بوٹی کی طرح سفید ہو چکے تھے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ان کے بالوں کی سفیدی کو بدل دو۔ پھر سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ اپنی بہن کا ہاتھ تھامے اُٹھے اور کہا: لوگو! میں تمہیں اللہ اور اسلام کا واسطہ دے کر کہتا ہوں کہ میری بہن کا ہار جس کے پاس ہو وہ واپس کر دے۔ لیکن جب کسی نے ان کی بات کا اثبات میں جواب نہ دیا۔ تو انہوں نے کہا: بہن! ہار سے محرومی پر اللہ سے اجر کی امید رکھو۔
Musnad Ahmad, Hadith(10858)