۔ (۱۰۸۸۶)۔ قَالَ الْاِمَامُ اَحْمَدُ: سَمِعْتُ یُونُسَیُحَدِّثُ عَنِ الزُّہْرِیِّ عَنْ مُسْلِمِ بْنِ یَزِیدَ أَحَدِ بَنِی سَعْدِ بْنِ بَکْرٍ أَنَّہُ سَمِعَ أَبَا
شُرَیْحٍ الْخُزَاعِیَّ ثُمَّ الْکَعْبِیَّ وَکَانَ مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وَہُوَ یَقُولُ: أَذِنَ لَنَا رَسُولُ اللّٰہِ یَوْمَ الْفَتْحِ فِی قِتَالِ بَنِی بَکْرٍ حَتَّی أَصَبْنَا مِنْہُمْ ثَأْرَنَا وَہُوَ بِمَکَّۃَ، ثُمَّ أَمَرَ رَسُولُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بِرَفْعِ السَّیْفِ، فَلَقِیَ رَہْطٌ مِنَّا الْغَدَ رَجُلًا مِنْ ہُذَیْلٍ فِی الْحَرَمِ یَؤُمُّ رَسُولَ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لِیُسْلِمَ، وَکَانَ قَدْ وَتَرَہُمْ فِی الْجَاہِلِیَّۃِ وَکَانُوا یَطْلُبُونَہُ، فَقَتَلُوہُ وَبَادَرُوْا أَنْ یَخْلُصَ إِلٰی رَسُولِ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فَیَأْمَنَ، فَلَمَّا بَلَغَ ذٰلِکَ رَسُولَ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم غَضِبَ غَضَبًا شَدِیدًا، وَاللّٰہِ مَا رَأَیْتُہُ غَضِبَ غَضَبًا أَشَدَّ مِنْہُ، فَسَعَیْنَا إِلٰی أَبِی بَکْرٍ وَعُمَرَ وَعَلِیٍّ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمْ نَسْتَشْفِعُہُمْ، وَخَشِینَا أَنْ نَکُونَ قَدْ ہَلَکْنَا، فَلَمَّا صَلّٰی رَسُولُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قَامَ فَأَثْنٰی عَلَی اللّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ بِمَا ہُوَ أَہْلُہُ ثُمَّ قَالَ: ((أَمَّا بَعْدُ، فَإِنَّ اللّٰہَ عَزَّ وَجَلَّ ہُوَ حَرَّمَ مَکَّۃَ، وَلَمْ یُحَرِّمْہَا النَّاسُ، وَإِنَّمَا أَحَلَّہَا لِی سَاعَۃً مِنَ النَّہَارِ أَمْسِ، وَہِیَ الْیَوْمَ حَرَامٌ کَمَا حَرَّمَہَا اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ أَوَّلَ مَرَّۃٍ، وَإِنَّ أَعْتَی النَّاسِ عَلَی اللّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ ثَلَاثَۃٌ، رَجُلٌ قَتَلَ فِیہَا، وَرَجُلٌ قَتَلَ غَیْرَ قَاتِلِہِ، وَرَجُلٌ طَلَبَ بِذَحْلٍ فِی الْجَاہِلِیَّۃِ، وَإِنِّی وَاللّٰہِ! لَأَدِیَنَّ ہٰذَا الرَّجُلَ الَّذِی قَتَلْتُمْ۔)) فَوَدَاہُ رَسُولُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ۔ (مسند احمد: ۱۶۴۸۹)
سیدنا ابو شریح خزاعی کعبی رضی اللہ عنہ ،جو کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اصحاب میں سے تھے، سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فتح مکہ والے دن ہمیں بنو بکر سے قتال کی(خصوصی) اجازت مرحمت فرمائی تھی، جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ابھی تک مکہ مکرمہ ہی میں تھے، چنانچہ ہم نے ان کے لوگوں کو قتل کر کے اپنا انتقام خوب لیا، اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تلواروں کو اُٹھا لینے سے منع فرما دیایعنی قتال کو مکمل طور پر روک دینے کا حکم دے دیا، لیکن اگلے دن ہمارے قبیلے کے کچھ لوگوں کو بنو ہذیل کا ایک آدمی حدودِ حرم ہی میں مل گیا، وہ اسلام قبول کرنے کے ارادے سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف آرہا تھا، وہ اس سے قبل جاہلیت کے دورِ میں ان لوگوں کے ساتھ کسی جرم کا مرتکب ہو چکا تھا، یہ اس کی تلاش میں تھے، چنانچہ انہوں نے اسے قتل کر دیا اور انہوں نے اس کام میں عجلت کا مظاہرہ کیا مبادا کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تک پہنچ جائے اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کو اسے قتل کرنے سے منع فرما دیں، جب اس بات کی اطلاع رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تک پہنچی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم شدید غضب ناک ہوئے، اللہ کی قسم! میں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اس سے زیادہ غصہ کی حالت میں کبھی نہیں دیکھا، ہم سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی خدمت میں گئے اور ان کی سفارش چاہی، ہمیں اندیشہ ہوا کہ ہم اپنی اس کو تاہی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ناراضگی کے نتیجہ میں تباہ نہ ہو جائیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نماز ادا کی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کھڑے ہو کر اللہ تعالیٰ کی کما حقہ حمد و ثناء بیان کی اور پھر فرمایا: اللہ تعالیٰ نے مکہ مکرمہ کو حرم والا قرار دیا، اسے لوگوں نے حرم نہیں بنایا، اللہ تعالیٰ نے گزشتہ کل کچھ دیر کے لیے اس حرم میں مجھے قتال کی اجازت دی تھی، اب یہ آج سے اسی طرح حرم ہے اور یہاں قتال کرنا حرام ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے اسے پہلے حرام ٹھہرایا تھا اور تین قسم کے لوگ اللہ تعالیٰ کے سخت سرکش اور باغی ہیں، ایک وہ جو حدودِ حرم میں کسی کو قتل کرے، دوسرا وہ جو اپنے قاتل کے علاوہ کسی دوسرے کو قتل کرے اور تیسرا وہ جو قبل از اسلام کے کسی جرم کا بدلہ لے، تم نے جس آدمی کو قتل کیا ہے، اللہ کی قسم! میں اس کی دیتیعنی خون بہا ضرور ادا کروں گا۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کی دیت ادا کی تھی۔
Musnad Ahmad, Hadith(10886)