۔ (۱۰۹۳۵)۔ حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ عِیسٰی قَالَ: حَدَّثَنِییَحْیَی بْنُ سُلَیْمٍ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عُثْمَانَ بْنِ خُثَیْمٍ عَنْ سَعِیدِ بْنِ أَبِی رَاشِدٍ، قَالَ: لَقِیتُ التَّنُوخِیَّ رَسُولَ ہِرَقْلَ إِلٰی رَسُولِ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بِحِمْصَ، وَکَانَ جَارًا لِی شَیْخًا کَبِیرًا، قَدْ بَلَغَ الْفَنَدَ أَوْ قَرُبَ،
فَقُلْتُ: أَلَا تُخْبِرُنِی عَنْ رِسَالَۃِ ہِرَقْلَ إِلَی النَّبِیِّ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وَرِسَالَۃِ رَسُولِ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم إِلٰی ہِرَقْلَ؟ فَقَالَ: بَلٰی، قَدِمَ رَسُولُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تَبُوکَ، فَبَعَثَ دِحْیَۃَ الْکَلْبِیَّ إِلٰی ہِرَقْلَ، فَلَمَّا أَنْ جَائَہُ کِتَابُ رَسُولِ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دَعَا قِسِّیسِی الرُّومِ وَبَطَارِقَتَہَا، ثُمَّ أَغْلَقَ عَلَیْہِ وَعَلَیْہِمْ بَابًا، فَقَالَ: قَدْ نَزَلَ ہٰذَا الرَّجُلُ حَیْثُ رَأَیْتُمْ، وَقَدْ أَرْسَلَ إِلَیَّیَدْعُونِی إِلٰی ثَلَاثِ خِصَالٍ، یَدْعُونِی إِلٰی أَنْ أَتَّبِعَہُ عَلَی دِینِہِ، أَوْ عَلٰی أَنْ نُعْطِیَہُ مَالَنَا عَلٰی أَرْضِنَا وَالْأَرْضُ أَرْضُنَا، أَوْ نُلْقِیَ إِلَیْہِ الْحَرْبَ، وَاللّٰہِ لَقَدْ عَرَفْتُمْ فِیمَا تَقْرَئُ وْنَ مِنَ الْکُتُبِ لَیَأْخُذَنَّ مَا تَحْتَ قَدَمَیَّ، فَہَلُمَّ نَتَّبِعْہُ عَلٰی دِینِہِأَوْ نُعْطِیہِ مَالَنَا عَلٰی أَرْضِنَا، فَنَخَرُوا نَخْرَۃَ رَجُلٍ وَاحِدٍ حَتّٰی خَرَجُوا مِنْ بَرَانِسِہِمْ، وَقَالُوا: تَدْعُونَا إِلٰی أَنْ نَدَعَ النَّصْرَانِیَّۃَ، أَوْ نَکُونَ عَبِیدًا لِأَعْرَابِیٍّ جَائَ مِنَ الْحِجَازِ، فَلَمَّا ظَنَّ أَنَّہُمْ إِنْ خَرَجُوْا مِنْ عِنْدِہِ أَفْسَدُوْا عَلَیْہِ الرُّومَ، رَفَأَہُمْ وَلَمْ یَکَدْ وَقَالَ: إِنَّمَا قُلْتُ ذَلِکَ لَکُمْ لِأَعْلَمَ صَلَابَتَکُمْ عَلٰی أَمْرِکُمْ، ثُمَّ دَعَا رَجُلًا مِنْ عَرَبِ تُجِیبَ کَانَ عَلٰی نَصَارَی الْعَرَبِ، فَقَالَ: ادْعُ لِی رَجُلًا حَافِظًا لِلْحَدِیثِ عَرَبِیَّ اللِّسَانِ أَبْعَثْہُ إِلٰی ہٰذَا الرَّجُلِ بِجَوَابِ کِتَابِہِ، فَجَائَ بِی فَدَفَعَ إِلَیَّ ہِرَقْلُ کِتَابًا، فَقَالَ: اذْہَبْ بِکِتَابِی إِلٰی ہٰذَا الرَّجُلِ فَمَا ضَیَّعْتُ مِنْ حَدِیثِہِ فَاحْفَظْ لِی مِنْہُ ثَلَاثَ خِصَالٍ، انْظُرْ ہَلْ یَذْکُرُ صَحِیفَتَہُ الَّتِی کَتَبَ إِلَیَّ بِشَیْئٍ، وَانْظُرْ إِذَا قَرَأَ کِتَابِی فَہَلْ یَذْکُرُ اللَّیْلَ، وَانْظُرْ فِی ظَہْرِہِ ہَلْ بِہِ شَیْئٌیَرِیبُکَ، فَانْطَلَقْتُ بِکِتَابِہِ حَتّٰی جِئْتُ تَبُوکَ فَإِذَا ہُوَ جَالِسٌ بَیْنَ ظَہْرَانَیْ أَصْحَابِہِ مُحْتَبِیًا عَلَی الْمَائِ، فَقُلْتُ: أَیْنَ صَاحِبُکُمْ؟ قِیلَ ہَا ہُوَ ذَا، فَأَقْبَلْتُ أَمْشِی حَتّٰی جَلَسْتُ بَیْنَیَدَیْہِ فَنَاوَلْتُہُ کِتَابِی فَوَضَعَہُ فِی حَجْرِہِ، ثُمَّ قَالَ: ((مِمَّنْ أَنْتَ۔)) فَقُلْتُ: أَنَا أَحَدُ تَنُوخَ، قَالَ: ((ہَلْ لَکَ فِی الْإِسْلَامِ الْحَنِیفِیَّۃِ مِلَّۃِ أَبِیکَ إِبْرَاہِیمَ؟)) قُلْتُ: إِنِّی رَسُولُ قَوْمٍ وَعَلٰی دِینِ قَوْمٍ لَا أَرْجِعُ عَنْہُ حَتّٰی أَرْجِعَ إِلَیْہِمْ، فَضَحِکَ وَقَالَ: {إِنَّکَ لَا تَہْدِی مَنْ أَحْبَبْتَ وَلٰکِنَّ اللّٰہَ یَہْدِی مَنْ یَشَائُ وَہُوَ أَعْلَمُ بِالْمُہْتَدِینَ} یَا أَخَا تَنُوخَ! إِنِّی کَتَبْتُ بِکِتَابٍ إِلٰی کِسْرٰی فَمَزَّقَہُ وَاللّٰہُ مُمَزِّقُہُ وَمُمَزِّقٌ مُلْکَہُ، وَکَتَبْتُ إِلَی النَّجَاشِیِّ بِصَحِیفَۃٍ فَخَرَقَہَا وَاللّٰہُ مُخْرِقُہُ وَمُخْرِقٌ مُلْکَہُ، وَکَتَبْتُ إِلَی صَاحِبِکَ بِصَحِیفَۃٍ فَأَمْسَکَہَا، فَلَنْ یَزَالَ النَّاسُ یَجِدُونَ مِنْہُ بَأْسًا مَا دَامَ فِی الْعَیْشِ خَیْرٌ۔)) قُلْتُ: ہٰذِہِ إِحْدَی الثَّلَاثَۃِ الَّتِی أَوْصَانِی بِہَا صَاحِبِی، وَأَخَذْتُ سَہْمًا مِنْ جَعْبَتِی فَکَتَبْتُہَا فِی جِلْدِ سَیْفِی، ثُمَّ إِنَّہُ نَاوَلَ الصَّحِیفَۃَ رَجُلًا عَنْ یَسَارِہِ، قُلْتُ: مَنْ صَاحِبُ کِتَابِکُمُ الَّذِییُقْرَأُ لَکُمْ؟ قَالُوا: مُعَاوِیَۃُ، فَإِذَا فِی کِتَابِ صَاحِبِی تَدْعُونِی إِلٰی جَنَّۃٍ عَرْضُہَا السَّمٰوَاتُ وَالْأَرْضُ أُعِدَّتْ لِلْمُتَّقِینَ فَأَیْنَ النَّارُ؟ فَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ((سُبْحَانَ اللّٰہِ أَیْنَ اللَّیْلُ إِذَا جَائَ النَّہَارُ؟)) قَالَ: فَأَخَذْتُ سَہْمًا مِنْ جَعْبَتِی فَکَتَبْتُہُ فِی جِلْدِ سَیْفِی، فَلَمَّا أَنْ فَرَغَ مِنْ قِرَائَۃِ کِتَابِی، قَالَ: ((إِنَّ لَکَ حَقًّا، وَإِنَّکَ رَسُولٌ فَلَوْ وُجِدَتْ عِنْدَنَا جَائِزَۃٌ جَوَّزْنَاکَ بِہَا، إِنَّا سَفْرٌ مُرْمِلُونَ۔)) قَالَ: فَنَادَاہُ رَجُلٌ مِنْ طَائِفَۃِ النَّاسِ قَالَ: أَنَا أُجَوِّزُہُ، فَفَتَحَ رَحْلَہُ فَإِذَا ہُوَ یَأْتِی بِحُلَّۃٍ صَفُورِیَّۃٍ فَوَضَعَہَا فِی حَجْرِی، قُلْتُ: مَنْ صَاحِبُ الْجَائِزَۃِ؟ قِیلَ لِی: عُثْمَانُ، ثُمَّ قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ((أَیُّکُمْیُنْزِلُ ہٰذَا الرَّجُلَ۔)) فَقَالَ فَتًی مِنَ الْأَنْصَارِ: أَنَا، فَقَامَ الْأَنْصَارِیُّ وَقُمْتُ مَعَہُ حَتّٰی إِذَا خَرَجْتُ مِنْ طَائِفَۃِ الْمَجْلِسِ نَادَانِی رَسُولُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وَقَالَ: ((تَعَالَ یَا أَخَا تَنُوخَ۔)) فَأَقْبَلْتُ أَہْوِی إِلَیْہِ حَتّٰی کُنْتُ قَائِمًا فِی مَجْلِسِی الَّذِی کُنْتُ بَیْنَیَدَیْہِ، فَحَلَّ حَبْوَتَہُ عَنْ ظَہْرِہِ وَقَالَ: ((ہَاہُنَا امْضِ لِمَا أُمِرْتَ لَہُ۔)) فَجُلْتُ فِی ظَہْرِہِ فَإِذَا أَنَا بِخَاتَمٍ فِیْ مَوْضِعِ غُضُونِ الْکَتِفِ مِثْلِ الْحَجْمَۃِ الضَّخْمَۃِ۔ (مسند احمد: ۱۵۷۴۰)
سعید بن ابی راشد سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میں ہرقل کے قاصد تنوخی کو حمص میں ملا،جسے اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف بھیجا تھا، وہ میرا ہمسایہ تھا، وہ بہت بوڑھا ہو چکا تھا، یا شدید بڑھاپے کے قریب پہنچ چکا تھا، میں نے اس سے کہا: کیا آپ مجھے ہرقل کی طرف سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نام اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف سے ہرقل کے نام ہونے والے نامہ پیام سے آگاہ کر سکتے ہیں؟ اس نے کہا: کیوں نہیں، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تبوک میں وارد ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دحیہ کلبی رضی اللہ عنہ کو ہرقل کی طرف قاصد بنا کر روانہ فرمایا، جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مکتوب اس کے پاس پہنچا تو اس نے روم کے عیسائی پادریوں اور زعماء کو بلوایا، دروازے بند کر لیے، اور کہا تم دیکھ رہے ہو کہ یہ شخص یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کیسا مقام حاصل کر گیا ہے۔ اس نے میرے نام پیغام بھیج کر مجھے بھی تین باتوں کی دعوت دی ہے: میں اس کے دین کے بارے میں اس کا پیروکار بن جاؤں، یا پھر میں اسے اپنا مال بطور جزیہ ادا کروں اور یہ سر زمین ہمارے کنٹرول ہی میں رہے یا ہم اس کے ساتھ قتال کے لیے تیار رہیں۔ اللہ کی قسم تم اللہ کی کتابوں میں پڑھ کر جان چکے ہو کہ وہ ضرور بالضرور میرے اس تخت پر قابض ہو گا۔ پس آؤ ہم دین کے بارے میں اس کی پیروی کر لیںیا اس سرزمین کے عوض جزیہ دینے کا فیصلہ کر لیں،یہ سن کر وہ سب قائدینشدت غضب سے مغلوب ہو کر بیک آواز دھاڑے، لگتا تھا کہ وہ اپنے لباس سے باہر نکل آئیں گے، وہ سب کہنے لگے: کیا آپ ہمیں اس بات کی دعوت دیتے ہیں کہ ہم نصرانیت کو ترک کر کے حجاز سے آنے والے ایک دیہاتی کی پیروی اختیار کر لیں؟ جب اسے یقین ہو گیا کہ اگر یہ لوگ یہاں سے باہر گئے تو اہلِ روم کو وہ اس کے خلاف اُکسا اور بھڑکا سکتے ہیں، تو اس نے ان سے کچھ تکرار نہیں کیا، بلکہ ان کو حوصلہ دلاتے ہوئے کہا، میں نے تو تم سے یہ بات صرف آزمانے کے لیے کہی تھی، میں دیکھنا چاہتا تھا کہ تم اپنے دین پر کس حد تک پختہ ہو، پھر اس نے عرب کے تجیب قبیلہ کے ایک آدمی کو بلوایا جو عرب کے نصرانیوں پر مقرر تھا، اور اس سے کہا: تم میرے لیے عربی جاننے والے کسی ایسے آدمی کو بلاؤ جو ذمہ دار قسم کا ہو، میں اسے اس شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف اس کے خط کا جواب دے کر بھیجنا چاہتا ہوں، وہ مجھے ہرقل کی طرف لے گیا اور ہرقل نے ایک خط میرے حوالے کیا اور کہا تم میرایہ خط اس آدمی کے پاس لے جاؤ، اس نے مجھ سے جو کچھ کہا مجھے اس میں سے کوئی بات بھولی نہیں، تو وہاں جا کر میرے لیے اس کی تین باتوں کا خیال رکھنا۔ (۱) دیکھنا کہ اس نے میرے نام جو خط لکھا تھا، وہ اس کا کسی حوالہ سے ذکر بھی کرتا ہے؟ (۲) اور دیکھنا کہ جب وہ میرا خط پڑھے تو رات کو یاد کرتا ہے ؟(۳) اور یہ بھی دیکھنا کہ اس کی پشت پر تمہیں کچھ اجنبی سی چیز محسوس ہوتی ہے ؟میں ہرقل کا خط لے کر تبوک آیا، آپ پانی کے ایک چشمے کے قریب آلتی پالتی مارے صحابہ کے درمیان تشریف فرما تھے۔ میں نے دریافت کیا کہ آپ لوگوں کے سردار کہاں ہیں؟ مجھے بتایا گیا کہ وہ یہ ہیں۔ میں چلتا ہوا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے بیٹھ گیا، اور اپنا خط آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حوالے کیا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے اپنی گود میں رکھ لیا، اور دریافت فرمایا کہ تم کس قبیلہ سے ہو؟ میں نے عرض کیا: میں تنوخ قبیلہ کا فرد ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: کیا تمہیں اپنے روحانی باپ ابراہیم علیہ السلام کی ملت حنیفہ اسلام کی رغبت ہے؟ میں نے عرض کیا: میں ایک قوم کا قاصد ہوں اور اسی قوم کے دین کا حامل ہوں۔ میں اپنی قوم کے پاس واپس جانے تک تو اپنے دین سے واپس نہیں آسکتا۔ میرییہ بات سن کر آپ ہنس دیے اور فرمایا: {إِنَّکَ لَا تَہْدِی مَنْ أَحْبَبْتَ وَلٰکِنَّ اللّٰہَ یَہْدِی مَنْ یَشَائُ وَہُوَ أَعْلَمُ بِالْمُہْتَدِینَ} … آپ جسے چاہیں ہدایت نہیں دے سکتے، البتہ اللہ جسے چاہے ہدایت سے سرفراز کرتا ہے اور وہی راہ یاب ہونے والوں کو بہتر طور پر جانتا ہے۔ (سورۂ قصص: ۵۶) پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اے تنوخی! میں نے کسری کے نام ایک خط لکھا تھا، اس نے اسے پھاڑ ڈالا، اللہ اسے اور اس کی حکومت کو ٹکڑے ٹکڑے کرے گا اور میں نے نجاشی کے نام مکتوب لکھا تھا، اس نے اسے پھاڑ ڈالا، اللہ کی قسم، اللہ اسے اور اس کی حکومت کے ٹکڑے ٹکڑے کر دے گا اور میں نے تیرے بادشاہ ہرقل کے نام خط لکھا، اس نے اسے احترام سے پکڑا، جب تک اس کی حکومت ہے، لوگوں کو اس کی طرف سے ہمیشہ تکالیف پہنچتی رہیں گی۔ میں نے دل میں کہا کہ میرے آقا نے مجھ سے جو تین باتیں کہی تھیں،یہ ان میں سے ایک ہے، اور میں نے اپنے ترکش سے ایک تیر نکال کر اس جواب کو اپنی تلوار کی میان پر لکھ لیا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے وہ خط اپنے بائیں طرف بیٹھے ہوئے ایک آدمی کو دیا میں نے کہا اس خط کو کون پڑھے گا؟ لوگوں نے کہا: سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ ، میرے آقا کے خط میں لکھا ہوا تھا کہ آپ مجھے آسمانوں اور زمینوں کے برابر عرض والی جنت کی طرف بلاتے ہیں، جو پرہیزگاروں کے لیے تیار کی گئی ہے تو جہنم کہاں ہے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: سبحان اللہ، یہ کیسی بات ہوئی؟ جب دن آتا ہے تو رات کہاں جاتی ہے؟ یہ سن کر میں نے اپنے ترکش سے ایک تیرنکال کر اپنی تلوار کی میان پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جواب کو لکھ لیا، جب آپ میرے لائے ہوئے مکتوب کے پڑھنے سے فارغ ہوئے تو فرمایا: تم ایک قاصد ہو اور تمہارا ایک حق ہے، اگر میرے پاس تمہیں دینے کے لیے کچھ ہوتا تو ضرور عنایت کرتا، ہم اس وقت سفر میں ہیں اور سارا سامان ختم ہو چکا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کییہ بات سن کر لوگوں کے گروہ میں سے ایک آدمی نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پکار کر کہا: میں اسے تحفہ دیتا ہوں، اس نے اپنا سامان کھولا اور وہ اردن کے علاقے صفوریہ کا تیار شدہ ایک شان دار سوٹ لایا اور اس نے اسے میری گود میں رکھ دیا، میںنے پوچھا یہ تحفہ دینے والے کا کیا تعارف ہے؟ تو مجھے بتلایا گیا کہ یہ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ ہیں، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: تم میں سے کون ہے جو اس کی میزبانی کرے گا؟ ایک انصاری رضی اللہ عنہ نے کھڑے ہو کر کہا: جی میں ،وہ انصاری اُٹھا اور میں بھی اس کے ساتھ اُٹھ کھڑا ہوا۔ جب میں لوگوں کے گروہ میں سے ذرا باہر پہنچا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے پکار کر فرمایا: اے تنوخی! ذرا ادھر آنا۔ میں جلدی سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آکر، اپنی اسی جگہ پر کھڑا ہو گیا، جہاں پہلے میں بیٹھا تھا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی پشت سے چادر ہٹا دی اور فرمایا: تمہیں جو بات کہی گئی تھی، ادھر آکر دیکھ لو۔ میں نے آپ کیپشت مبارک کو دیکھا تو وہاں کندھے کے قریب سینگی کے نشان جیسی بڑی جگہ تھی۔
Musnad Ahmad, Hadith(10935)