۔ (۱۰۹۳۹)۔ عَنْ أَبِی الطُّفَیْلِ قَالَ: لَمَّا أَقْبَلَ رَسُولُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مِنْ غَزْوَۃِ تَبُوکَ أَمَرَ مُنَادِیًا فَنَادٰی: إِنَّ رَسُولَ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم أَخَذَ الْعَقَبَۃَ فَلَا یَأْخُذْہَا أَحَدٌ، فَبَیْنَمَا رَسُولُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یَقُودُہُ حُذَیْفَۃُ وَیَسُوقُبِہِ عَمَّارٌ، إِذْ أَقْبَلَ رَہْطٌ مُتَلَثِّمُونَ عَلَی الرَّوَاحِلِ غَشُوْا عَمَّارًا، وَہُوَ یَسُوقُ بِرَسُولِ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وَأَقْبَلَ عَمَّارٌ یَضْرِبُ وُجُوہَ الرَّوَاحِلِ، فَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لِحُذَیْفَۃَ: ((قَدْ قَدْ۔)) حَتّٰی ہَبَطَ
رَسُولُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فَلَمَّا ہَبَطَ رَسُولُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نَزَلَ وَرَجَعَ عَمَّارٌ فَقَالَ: ((یَا عَمَّارُ ہَلْ عَرَفْتَ الْقَوْمَ؟)) فَقَالَ: قَدْ عَرَفْتُ عَامَّۃَ الرَّوَاحِلِ، وَالْقَوْمُ مُتَلَثِّمُونَ قَالَ: ((ہَلْ تَدْرِی مَا أَرَادُوا؟)) قَالَ: اللّٰہُ وَرَسُولُہُ أَعْلَمُ، قَالَ: ((أَرَادُوا أَنْ یَنْفِرُوا بِرَسُولِ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فَیَطْرَحُوہُ۔)) قَالَ: فَسَأَلَ عَمَّارٌ رَجُلًا مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فَقَالَ: نَشَدْتُکَ بِاللّٰہِ، کَمْ تَعْلَمُ کَانَ أَصْحَابُ الْعَقَبَۃِ؟ فَقَالَ: أَرْبَعَۃَ عَشَرَ، فَقَالَ: إِنْ کُنْتَ فِیہِمْ فَقَدْ کَانُوا خَمْسَۃَ عَشَرَ فَعَدَّدَ رَسُولُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مِنْہُمْ ثَلَاثَۃً، قَالُوا: وَاللّٰہِ، مَا سَمِعْنَا مُنَادِیَ رَسُولِ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وَمَا عَلِمْنَا مَاأَرَادَ الْقَوْمُ، فَقَالَ: عَمَّارٌ أَشْہَدُ أَنَّ الِاثْنَیْ عَشَرَ الْبَاقِینَ حَرْبٌ لِلَّہِ وَلِرَسُولِہِ فِی الْحَیَاۃِ الدُّنْیَا وَیَوْمَیَقُومُ الْأَشْہَادُ، قَالَ الْوَلِیدُ: وَذَکَرَ أَبُو الطُّفَیْلِ فِی تِلْکَ الْغَزْوَۃِ أَنَّ رَسُولَ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قَالَ لِلنَّاسِ وَذُکِرَ لَہُ أَنَّ فِی الْمَائِ قِلَّۃً، فَأَمَرَ رَسُولُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مُنَادِیًا فَنَادٰی أَنْ لَا یَرِدَ الْمَائَ أَحَدٌ قَبْلَ رَسُولِ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فَوَرَدَہُ رَسُولُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فَوَجَدَ رَہْطًا قَدْ وَرَدُوہُ قَبْلَہُ فَلَعَنَہُمْ رَسُولُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یَوْمَئِذٍ۔ (مسند احمد: ۲۴۲۰۲)
سیدنا ابو طفیل رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جب اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تبوک سے واپس ہوئے توآپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک اعلان کرنے والے کو حکم دیا اور اس نے اعلان کیا کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پہاڑ کے اوپر والا راستہ اختیار کریں گے، لہٰذا کوئی دوسراآدمییہ راستہ اختیار نہ کرے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے آگے آگے سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ او رپیچھے پیچھے سیدنا عمار رضی اللہ عنہ تھے، منہ چھپائے اونٹوں پر سوار کچھ لوگ اچانک آگئے اور سیدنا عمار رضی اللہ عنہ پر ازدحام کر لیا اور وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اونٹ کو ہانک رہے تھے، سیدنا عمار رضی اللہ عنہ نے ان حملہ آوروں کے اونٹوں کے مونہوں پر مارنا شروع کیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ سے فرمایا: بس، بس۔ یہاں تک کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نیچے اتر آئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب نیچے اترے تو سیدنا عمار رضی اللہ عنہ واپس آگئے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: عمار ! کیا آپ نے ان لوگوں کو پہنچانا؟ انہوں نے عرض کیا کہ میں اکثر اونٹوں کو تو پہچان چکا ہوں، البتہ وہ لوگ منہ چھپائے ہوئے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: تم جانتے ہو کہ ان کا کیا ارادہ تھا؟ انہوں نے عرض کیا: اللہ اور اس کا رسول ہی بہتر جانتے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ان کا ارادہ تھا کہ وہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو الگ کر کے لے جائیں اور ان کو نیچے گرا دیں، سیدنا عمار رضی اللہ عنہ نے چپکے سے ایک صحابی سے بات کی اور پوچھا: میں آپ کو اللہ کا واسطہ دے کر پوچھتا ہوں کیا تم جانتے ہو کہ ان لوگوں کی تعداد کتنی تھی؟ اس نے کہا: چودہ، انہوں نے کہا کہ اگر تم بھی انہی میں سے ہو تو یہ کل تعداد پندرہ ہوئی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان میں سے تین آدمیوں کا نام لیا، جنہوں نے کہا کہ اللہ کی قسم ہم نے اللہ کے رسول کی طرف سے اعلان کرنے والے کا اعلان نہیں سنا تھا، اور نہ ہی ہمیں ان لوگوں کے ارادہ کا علم تھا۔ سیدنا عمار رضی اللہ عنہ نے کہا: میں گواہی دیتا ہوں کہ ان میں سے باقی پندرہ آدمی سب ہی دنیا اور آخرت میں اللہ اور اس کے رسول کے مخالف ہیں۔ ولید نے کہا کہ سیدنا ابو طفیل رضی اللہ عنہ نے اس غزوہ کا ذکر کرتے ہوئے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے جب پانی کی قلت کا ذکر کیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے لوگوں سے فرمایا اور اعلان کرایا کہ اللہ کے رسول سے پہلے کوئی آدمی پانی کے قریب نہ جائے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب پانی کے قریب پہنچے تو آپ نے کچھ لوگوں کو دیکھا، جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پہلے وہاں پہنچ چکے تھے۔ تو اس روز آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان پر لعن طعن کیا۔
Musnad Ahmad, Hadith(10939)