Blog
Books



۔ (۱۰۹۴۳)۔ عَنْ عَمْرِو بْنِ مَیْمُٔونٍ قَالَ: إِنِّی لَجَالِسٌ إِلَی ابْنِ عَبَّاسٍ إِذْ أَتَاہُ تِسْعَۃُ رَہْطٍ، فَقَالُوْا: یَا أَبَا عَبَّاسٍ! إِمَّا أَنْ تَقُومَ مَعَنَا، ٔوَإِمَّا أَنْ یُخْلُونَا ہٰؤُلَائِ، قَالَ: فَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: بَلْ أَقُومُ مَعَکُمْ، قَالَ: وَہُوَ یَوْمَئِذٍ صَحِیحٌ قَبْلَ أَنْ یَعْمٰی، قَالَ فَابْتَدَء ُوا فَتَحَدَّثُوا فَلَا نَدْرِی مَا قَالُوْا، قَالَ: فَجَائَ یَنْفُضُ ثَوْبَہُ وَیَقُولُ: أُفْ وَتُفْ وَقَعُوا فِی رَجُلٍ لَہُ عَشْرٌ، وَقَعُوا فِی رَجُلٍ قَالَ لَہُ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((لَأَبْعَثَنَّ رَجُلًا لَا یُخْزِیہِ اللّٰہُ أَبَدًا، یُحِبُّ اللّٰہَ وَرَسُولَہُ۔)) قَالَ: فَاسْتَشْرَفَ لَہَا مَنِ اسْتَشْرَفَ، قَالَ: ((أَیْنَ عَلِیٌّ؟)) قَالُوْا: ہُوَ فِی الرَّحْلِ یَطْحَنُ، قَالَ: وَمَا کَانَ أَحَدُکُمْ لِیَطْحَنَ، قَالَ: فَجَائَ وَہُوَ أَرْمَدُ لَا یَکَادُیُبْصِرُ، قَالَ: فَنَفَثَ فِی عَیْنَیْہِ ثُمَّ ہَزَّ الرَّایَۃَ ثَلَاثًا فَأَعْطَاہَا إِیَّاہُ، فَجَائَ بِصَفِیَّۃَ بِنْتِ حُیَیٍّ، قَالَ: ثُمَّ بَعَثَ فُلَانًا بِسُورَۃِ التَّوْبَۃِ، فَبَعَثَ عَلِیًّا خَلْفَہُ فَأَخَذَہَا مِنْہُ، قَالَ: ((لَا یَذْہَبُ بِہَا إِلَّا رَجُلٌ مِنِّی وَأَنَا مِنْہُ۔)) قَالَ: وَقَالَ لِبَنِی عَمِّہِ: ((أَیُّکُمْیُوَالِینِی فِی الدُّنْیَا وَالْآخِرَۃِ؟)) قَالَ: وَعَلِیٌّ مَعَہُ جَالِسٌ فَأَبَوْا فَقَالَ عَلِیٌّ: أَنَا أُوَالِیکَ فِیالدُّنْیَا وَالْآخِرَۃِ، قَالَ: ((أَنْتَ وَلِیِّی فِی الدُّنْیَا وَالْآخِرَۃِ۔)) قَالَ: فَتَرَکَہُ ثُمَّ أَقْبَلَ عَلَی رَجُلٍ مِنْہُمْ، فَقَالَ: ((أَیُّکُمْیُوَالِینِی فِی الدُّنْیَا وَالْآخِرَۃِ؟)) فَأَبَوْا قَالَ: فَقَالَ عَلِیٌّ: أَنَا أُوَالِیکَ فِی الدُّنْیَا وَالْآخِرَۃِ، فَقَالَ: ((أَنْتَ وَلِیِّی فِی الدُّنْیَا وَالْآخِرَۃِ۔)) َقَالَ: وَکَانَ أَوَّلَ مَنْ أَسْلَمَ مِنَ النَّاسِ بَعْدَ خَدِیجَۃَ، قَالَ: وَأَخَذَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ثَوْبَہُ فَوَضَعَہُ عَلٰی عَلِیٍّ وَفَاطِمَۃَ وَحَسَنٍ وَحُسَیْنٍ فَقَالَ {إِنَّمَا یُرِیدُ اللّٰہُ لِیُذْہِبَ عَنْکُمُ الرِّجْسَ أَہْلَ الْبَیْتِ وَیُطَہِّرَکُمْ تَطْہِیرًا} قَالَ: وَشَرٰی عَلِیٌّ نَفْسَہُ لَبِسَ ثَوْبَ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ثُمَّ نَامَ مَکَانَہُ، قَالَ: وَکَانَ الْمُشْرِکُونَ یَرْمُونَ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَجَائَ أَبُو بَکْرٍ وَعَلِیٌّ نَائِمٌ، قَالَ: وَأَبُو بَکْرٍ یَحْسَبُ أَنَّہُ نَبِیُّ اللّٰہِ، قَالَ: فَقَالَ: یَا نَبِیَّ اللّٰہِ، قَالَ: فَقَالَ لَہُ عَلِیٌّ: إِنَّ نَبِیَّ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَدِ انْطَلَقَ نَحْوَ بِئْرِ مَیْمُونٍ فَأَدْرِکْہُ، قَالَ: فَانْطَلَقَ أَبُو بَکْرٍ فَدَخَلَ مَعَہُ الْغَارَ، قَالَ: وَجَعَلَ عَلِیٌّیُرْمٰی بِالْحِجَارَۃِ کَمَا کَانَ یُرْمٰی نَبِیُّ اللّٰہِ وَہُوَ یَتَضَوَّرُ قَدْ لَفَّ رَأْسَہُ فِی الثَّوْبِ لَا یُخْرِجُہُ حَتّٰی أَصْبَحَ، ثُمَّ کَشَفَ عَنْ رَأْسِہِ فَقَالُوْا: إِنَّکَ لَلَئِیمٌ کَانَ صَاحِبُکَ نَرْمِیہِ فَلَا یَتَضَوَّرُ، وَأَنْتَ تَتَضَوَّرُ، وَقَدْ اسْتَنْکَرْنَا ذٰلِکَ، قَالَ: وَخَرَجَ بِالنَّاسِ فِی غَزْوَۃِ تَبُوکَ، قَالَ: فَقَالَ لَہُ عَلِیٌّ: أَخْرُجُ مَعَکَ، قَالَ: فَقَالَ لَہُ نَبِیُّ اللّٰہِ: ((لَا۔)) فَبَکٰی عَلِیٌّ، فَقَالَ لَہُ: ((أَمَا تَرْضٰی أَنْ تَکُونَ مِنِّی بِمَنْزِلَۃِ ہَارُونَ مِنْ مُوسٰی إِلَّا أَنَّکَ لَسْتَ بِنَبِیٍّ، إِنَّہُ لَا یَنْبَغِی أَنْ أَذْہَبَ إِلَّا وَأَنْتَ خَلِیفَتِی۔)) قَالَ: وَقَالَ لَہُ رَسُولُ اللّٰہِ: أَنْتَ ((وَلِیِّی فِی کُلِّ مُؤْمِنٍ بَعْدِی۔)) وَقَالَ: ((سُدُّوا أَبْوَابَ الْمَسْجِدِ غَیْرَ بَابِ عَلِیٍّ۔)) فَقَالَ: فَیَدْخُلُ الْمَسْجِدَ جُنُبًا وَہُوَ طَرِیقُہُ لَیْسَ لَہُ طَرِیقٌ غَیْرُہُ، قَالَ: وَقَالَ: ((مَنْ کُنْتُ مَوْلَاہُ فَإِنَّ مَوْلَاہُ عَلِیٌّ۔)) قَالَ: وَأَخْبَرَنَا اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ فِی الْقُرْآنِ أَنَّہُ قَدْ رَضِیَ عَنْہُمْ عَنْ أَصْحَابِ الشَّجَرَۃِ، فَعَلِمَ مَا فِی قُلُوبِہِمْ، ہَلْ حَدَّثَنَا أَنَّہُ سَخِطَ عَلَیْہِمْ بَعْدُ، قَالَ: وَقَالَ نَبِیُّ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم لِعُمَرَ حِینَ قَالَ: ائْذَنْ لِی فَلْأَضْرِبْ عُنُقَہُ، قَالَ: ((أَوَکُنْتَ فَاعِلًا، وَمَا یُدْرِیکَ لَعَلَّ اللّٰہَ قَدِ اطَّلَعَ إِلٰی أَہْلِ ٔبَدْرٍ، فَقَالَ: اعْمَلُوْا مَا شِئْتُمْ۔)) (مسند احمد: ۳۰۶۱)
عمرو بن میمون سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میں سیدنا عبد اللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما کی خدمت میںبیٹھا تھا کہ نو آدمی ان کی خدمت میں حاضر ہوئے، انہوںنے کہا: اے ابو العباس! یا تو آپ اٹھ کر ہمارے ساتھ چلیںیایہ لوگ اٹھ جائیں اور ہمیں خلوت دیں، سیدنا عبد اللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما نے کہا: میں تمہارے ساتھ اٹھ جاتا ہوں، عمر و بن میمون کہتے ہیں: ان دنوں سیدنا عبد اللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما صحت مند تھے، یہ ان کے نابینا ہونے سے قبل کی بات ہے، عمرو کہتے ہیں کہ ان لوگوں نے ابتداء کرتے ہوئے بات کی، ہم نہیں جانتے کہ انہوں نے کیا کہا؟ کچھ دیر بعد سیدنا عبد اللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما اپنے کپڑے جھاڑتے ہوئے آگئے، وہ کہہ رہے تھے، ہائے افسوس یہ لوگ اس آدمی پر طعن و تشنیع کرتے ہیں، جسے دس امتیازات حاصل ہوں، یہ اس شخصیت پر معترض ہیں، جس کی بابت نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا تھا: میں اب ایک ایسے آدمی کو بھیجوں گا کہ جسے اللہ کبھی ناکام نہیں کرے گا، وہ اللہ سے اور اس کے رسول سے محبت کرتا ہے۔ سیدنا عبد اللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما نے کہا: آپ کییہ بات سن کر بہت سے لوگوں نے گردنیں اوپر کو اٹھائیں، لیکن آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہاں ہیں؟ بتانے والے نے بتلایا کہ وہ اپنے خیمے میںآٹا پیس رہے ہیں، سیدنا عبد اللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما نے کہا: اب تم میں سے کوئی آدمییہ کام نہیں کرتا، سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ آئے اور ان کی آنکھیں دکھ رہی تھیں اور وہ دیکھ بھی نہیں سکتے تھے، نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان کی آنکھو ںمیں لعاب ڈالا، پھر جھنڈے کو تین بار لہرا کر ان کے حوالے کیا، وہ فتح یاب واپس ہوئے اور قیدیوں میں صفیہ بنت حیی بھی تھیں، سیدنا عبد اللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما نے کہا نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فلاں آدمی کو سورۂ توبہ دے کر روانہ کیا، اس کے بعد سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو ان کے پیچھے روانہ فرمایا، انہوں نے جا کر اس سے سورۂ توبہ لے لی، اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا تھا کہ اس سورت کو ایسا آدمی لے جائے، جو مجھ سے ہے اور میں اس سے ہوں۔ سیدنا عبداللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما نے کہا: نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اپنی برادری سے فرمایا تھا کہ تم میں سے کون ہے جو دنیا و آخرت میں میرا ساتھ دے اور میرے ساتھ رہے؟ سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بھی وہیں بیٹھے تھے، لوگوں نے انکار کیا تو علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: میں دنیا و آخرت میں آپ کے ساتھ رہوں گا،آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: دنیا و آخرت میں تم میرے ساتھ ہی ہو، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم انہیں چھوڑ کر دوسرے آدمی کی طرف متوجہ ہوئے، اور فرمایا: تم میں سے کون دنیا و آخرت میں میرا ساتھ دے گا؟ لوگوں نے انکار کیا تو سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا کہ دنیا و آخرت میں میں آپ کے ساتھ رہوں گا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تم دنیا اور آخرت میں میرے ساتھی ہو۔ سیدنا عبد اللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما نے کہا:سیدہ خدیجہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کے بعد انہوں نے ہی سب سے پہلے اسلام قبول کیا اور رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اپنی چادر لے کر سیدنا علی، سیدہ فاطمہ، سیدنا حسن اور سیدنا حسین کے اوپر ڈال دی اور فرمایا:{اِنَّمَایُرِیْدُ اللّٰہَ لِیُذْھِبَ عَنْکُمُ الِّرجْسَ اَھْلَ الْبَیِتَ وَیُطَھِّرَکُمْ تَطْھِیْرًا} … صرف اللہ تعالیٰیہ چاہتا ہے کہ وہ اے اہل بیت تم سے گندگی کو دور کر دے اور تم کو پاک صاف کر دے۔ اور سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے لیے اپنی جان کا نذرانہ یوں پیش کیا کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا لباس زیب تن کر کے ان کی جگہ پر سوگئے اور مشرکین رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو پتھر مار رہے تھے، سیدنا ابو بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ تشریف لائے، سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سوئے ہوئے تھے، انہوںنے سمجھا کہ یہ اللہ کے نبی ہیں، انہوں نے کہا: اے اللہ کے نبی! تو سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: اللہ کے نبی تو بئر میمون کی طرف تشریف لے گئے ہیں،یہ ایک کنویں کا نام تھا، آپ ان کے پاس مل جائیں سیدنا ابو بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بھی پیچھے پہنچ گئے، سیدنا ابو بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ساتھ چلے اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ہم راہ غار میں جا داخل ہوئے، سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو بھی اسی طرح پتھر مارے گئے، جیسے نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو مارے جاتے تھے، اور وہ کپڑے ہی میں کپڑے کے نیچے ہی الٹ پلٹ رہے تھے، انہوں نے اپنا سر کپڑے میں اچھی طرح چھپا لیا، سر کو باہر نہیں نکالتے تھے، یہاں تک کہ صبح ہوگئی، اس کے بعد انہوں نے اپنے سر سے کپڑا ہٹایا، تو مشرکین نے کہا: تم بڑے ذلیل ہو، ہم تمہارے ساتھی کو پتھر مارتے تھے تو وہ اس طرح الٹتے پلٹتے نہیں تھے اور تم تو پتھر لگنے پر الٹے سیدھے ہوتے تھے، اور ہمیں یہ بات کچھ عجیب سی لگتی تھی، اور نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم صحابہ کو ساتھ لیے تبو ک کی طرف روانہ ہوئے، تو سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: میں بھی آپ کے ہمراہ جاؤں گا، جب نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے انکار کیا تو وہ رونے لگے،پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان سے فرمایا : تم اس بات پر راضی نہیں کہ تمہارا میرے ساتھ وہی تعلق ہو، جو موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ ہارون علیہ السلام کا تھا، فرق صرف اتنا ہے کہ تم نبی نہیں ہو، میں جاؤں تو تم میرے خلیفہ اور نائب کی حیثیت سے یہاں رہو۔ اور رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان سے مزید فرمایا: میرے بعد تم ہر مومن کے دوست ہو۔ نیز فرمایا: علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے دروازے کو چھوڑ کر باقی تم سب لوگ اپنے اپنے دروازے بند کر دو۔ اس طرح سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ جنابت کی حالت میں بھی مسجد میں داخل ہوجاتے تھے، کیونکہ ان کا ا س کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ نہیں تھا، نیز رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جس کا میں دوست ہوں، علی بھی اس کا دوست ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں قرآن مجید میں بتلایا کہ کہ وہ اصحاب شجرہ یعنی صلح حدیبیہ کے موقع پر درخت کے نیچے رسول اکرم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ہاتھ پر بیعت کرنے والوں سے راضی ہے، اور ان لوگوں کے دلوں میںجو کچھ تھا، اللہ اس سے بھی واقف تھا، کیا اللہ نے اس کے بعد کسی موقع پر فرمایا کہ اب وہ ان سے ناراض ہو گیا ہے؟ نیز جب سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے ایک شخص سیدنا حاطب بن ابی بلتعہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے بارے میں کہا: اے اللہ کے رسول! مجھے اجازت دیجئے میں اس کی گردن اڑادوں تو اللہ کے نبی نے فرمایا تھا: کیا تم ایسا کرو گے؟ کیا تم نہیں جانتے کہ اللہ تعالیٰ نے اہل بدر پر نظر ڈالی اور فرمایا :اب تم جو چاہو کرتے رہو، (میں نے تمہیں معاف کر دیا ہے)۔
Musnad Ahmad, Hadith(10943)
Background
Arabic

Urdu

English