Blog
Books



۔ (۱۰۹۴۴)۔ عَنِ الزُّہْرِیِّ أَخْبَرَنِی ابْنُ أَخِی أَبِی رُہْمٍ، أَنَّہُ سَمِعَ أَبَا رُہْمٍ الْغِفَارِیَّ، وَکَانَ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم الَّذِینَ بَایَعُوا تَحْتَ الشَّجَرَۃِیَقُولُ: غَزَوْتُ مَعَ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم غَزْوَۃَ تَبُوکَ، فَلَمَّا فَصَلَ سَرٰی لَیْلَۃً فَسِرْتُ قَرِیبًا مِنْہُ، وَأُلْقِیَ عَلَیَّ النُّعَاسُ فَطَفِقْتُ أَسْتَیْقِظُ، وَقَدْ دَنَتْ رَاحِلَتِی مِنْ رَاحِلَتِہِ، فَیُفْزِعُنِی دُنُوُّہَا خَشْیَۃَ أَنْ أُصِیبَ رِجْلَہُ فِی الْغَرْزِ، فَأُؤَخِّرُ رَاحِلَتِی حَتّٰی غَلَبَتْنِی عَیْنِی فِی نِصْفِ اللَّیْلِ، فَرَکِبَتْ رَاحِلَتِی رَاحِلَتَہُ، وَرِجْلُ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فِی الْغَرْزِ فَأَصَابَتْ رِجْلَہُ، فَلَمْ أَسْتَیْقِظْ إِلَّا بِقَوْلِہِ حَسِّ، فَرَفَعْتُ رَأْسِی فَقُلْتُ: اسْتَغْفِرْ لِییَا رَسُولَ اللّٰہِ! فَقَالَ: سَلْ، فَقَالَ: فَطَفِقَ یَسْأَلُنِی عَمَّنْ تَخَلَّفَ مِنْ بَنِی غِفَارٍ، فَأُخْبِرُہُ فَإِذَا ہُوَ یَسْأَلُنِی: ((مَا فَعَلَ النَّفَرُ الْحُمْرُ الطُّوَالُ الْقِطَاطُ؟ (أَوْ قَالَ: الْقِصَارُ، عَبْدُ الرَّزَّاقِ یَشُکُّ) الَّذِینَ لَہُمْ نَعَمٌ بِشَظِیَّۃِ شَرْخٍ۔)) قَالَ: فَذَکَرْتُہُمْ فِی بَنِی غِفَارٍ، فَلَمْ أَذْکُرْہُمْ حَتّٰی ذَکَرْتُ رَہْطًا مِنْ أَسْلَمَ، فَقُلْتُ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! مَا یَمْنَعُ أَحَدَ أُولٰئِکَ حِینَ تَخَلَّفَ، أَنْ یَحْمِلَ عَلٰی بَعِیرٍ مِنْ إِبِلِہِ امْرَأً نَشِیطًا فِی سَبِیلِ اللّٰہِ، فَادْعُوا ہَلْ أَنْ یَتَخَلَّفَ عَنِ الْمُہَاجِرِینَ مِنْ قُرَیْشٍ وَالْأَنْصَارِ وَأَسْلَمَ وَغِفَارٍ۔ (مسند احمد: ۱۹۲۸۲)
سیدنا ابور ہم غفاری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ، یہ ان صحابہ میں سے ہیں جنہوںنے درخت کے نیچے نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ہاتھ پر بیعت کی تھی، سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میں نے نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی معیت میں غزوۂ تبوک میں شرکت کی، جب آپ روانہ ہوئے تو آپ رات کو چلتے رہے، میں بھی آپ کے قریب چلتا رہا، مجھے اونگھ آگئی، میں جاگنے کی کوشس کرنے لگا، میری سواری آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی سواری کے قریب تھی، مجھے اس بات کا اندیشہ تھا کہ مبادا میں رکاب میں رکھے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاؤں سے ٹکرا نہ جاؤں، اس لیے میں اپنی سواری کو ذرا پیچھے رکھتا، یہاں تک کہ جب نصف رات ہوئی تو میری آنکھ مجھ پر غالب آگئی اور میری سواری آپ کی سواری پر جا چڑھی، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا پاؤں رکاب میں تھا، میری سواری آپ کے پاؤں کے ساتھ جا ٹکرائی اور میں تب بیدار ہوا جب میں نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے حَسِّ کے الفاظ سنے (جو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے تکلیف محسوس کرنے پر کہے)، سو میں نے اپنا سر اوپر کو اُٹھایا اور عرض کیا: اے اللہ کے رسول! میرے لیے مغفرت (اس گستاخی کی معافی) کی دعا فرمائیں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: آپ بھی سوال کرو۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مجھ سے بنو غفار کے پیچھے رہ جانے والے لوگوں کے متعلق دریافت کرنے لگے اور میں آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو بتانے لگا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مجھ سے دریافت فرمایا کہ ان سرخ رنگ، طویل قامت سخت گھونگھر یالے بالوں والوں نے کیا کیا؟یا آپ نے فرمایا کہ چھوٹے بالوں والوں نے کیا کیا؟ یہ شک عبدالرزاق کو ہوا ہے۔ وہ لوگ جن کی حجاز میں مقامِ شرخ پر پہاڑوں کی چوٹیوں پر بکریاں ہیں۔ مجھے یاد آیا کہ وہ بنو غفار میں سے ہیں۔ مجھے اچھی طرح یاد نہیں آیا پھر مجھے بنو اسلم کا خیال آیا، میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! وہ خود تو پیچھے رہ گئے، انہیں کیا مانع تھا کہ وہ اپنے اونٹوں میں سے کسی اونٹ پر اپنی بجائے دوسرے کسی چست سے آدمی کو اللہ کی راہ میں روانہ کر دیتے۔ میں پکار کر معلوم کرتا ہوں کہ قریش، انصار، بنو اسلم اور بنو غفار میں سے کون لوگ مہاجرین سے پیچھے رہ گئے ہیں۔
Musnad Ahmad, Hadith(10944)
Background
Arabic

Urdu

English