۔ (۱۰۹۷۰)۔ عَنْ اَبِیْ أُمَامَۃَ الْبَاہِلِیَّیَقُولُ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فِی خُطْبَتِہِ عَامَّ حَجَّۃِ الْوَدَاعِ: ((إِنَّ اللّٰہَ قَدْ أَعْطٰی کُلَّ ذِی حَقٍّ حَقَّہُ فَلَا وَصِیَّۃَ لِوَارِثٍ وَالْوَلَدُ لِلْفِرَاشِ وَلِلْعَاہِرِ الْحَجَرُ وَحِسَابُہُمْ عَلَی اللّٰہِ، وَمَنِ ادَّعٰی إِلٰی غَیْرِ أَبِیہِ أَوِ انْتَمَی إِلٰی غَیْرِ مَوَالِیہِ فَعَلَیْہِ لَعْنَۃُ اللّٰہِ التَّابِعَۃُ إِلَییَوْمِ الْقِیَامَۃِ، لَا تُنْفِقُ الْمَرْأَۃُ شَیْئًا مِنْ بَیْتِہَا إِلَّا بِإِذْنِ زَوْجِہَا۔)) فَقِیلَ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! وَلَا الطَّعَامَ؟ قَالَ: ((ذٰلِکَ أَفْضَلُ أَمْوَالِنَا۔)) قَالَ: ثُمَّ قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ((الْعَارِیَۃُ مُؤَدَّاۃٌ وَالْمِنْحَۃُ مَرْدُودَۃٌ وَالدَّیْنَ مَقْضِیٌّ وَالزَّعِیمُ غَارِمٌ۔)) (مسند احمد: ۲۲۶۵۰)
سیدنا ابو امامہ باہلی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو حجۃ الوداع کے موقع پر خطبہ میںیوں ارشاد فرماتے سنا کہ اللہ تعالیٰ نے ہر حق دار کو اس کا حق دے دیا ہے، پس اب کسی وارث کے حق میں وصیت نہیں کی جا سکتی، بچہ اسی کی طرف منسوب ہو گا، جس کے بستر پر یعنی جس کے گھر میں پیدا ہو ا اور زانی کے لیے سنگ ساری کی سزا ہے اور ان کا اصل حساب اللہ کے ذمہ ہے۔ جو شخص اپنے حقیقی باپ کے علاوہ کسی دوسرے کا بیٹا ہونے کا دعویٰ کرے گا یا اپنے اصل مالکوں کے علاوہ اپنے آپ کو کسی دوسرے کی طرف نسبت کرے تو اس پر قیامت تک اللہ کی لعنت برابر برستی رہے گی۔کوئی عورت اپنے شوہر کی اجازت کے بغیر اپنے گھر میں سے کوئی چیز خرچ نہ کرے۔ کسی نے پوچھا: اے اللہ کے رسول! کیا کھانا بھی؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: یہ تو ہمارے اموال میں سب سے قیمتی چیز ہے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ادھار لی ہوئی چیز کا واپس کرنا ضروری ہے، کسی نے دودھ کا جانور بطور عطیہ دیا ہو کہ تم اس کا دودھ پیتے رہو، ایسے جانور کی واپسی بھی ضروری ہے، قرض کی ادائیگی بھی ضروری ہے، اور جو کوئی کسی کی ضمانت دے تو اصل کی بجائے یہ آدمی مقروض ہے۔ یعنی اگر وہ شخص ادا نہ کرے تو ضامن اس کی ادائیگیکا پابند ہے۔
Musnad Ahmad, Hadith(10970)