۔ (۱۰۹۸۰)۔ عَنْ عَائِشَۃَ قَالَ سُفْیَانُ: سَمِعْتُ مِنْہُ حَدِیثًا طَوِیلًا لَیْسَ أَحْفَظُہُ مِنْ أَوَّلِہِ إِلَّا قَلِیلًا، دَخَلْنَا عَلَی عَائِشَۃَ فَقُلْنَا: یَا أُمَّ الْمُؤْمِنِینَ! أَخْبِرِینَا عَنْ مَرَضِ رَسُولِ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قَالَتْ: اشْتَکٰی، فَجَعَلَیَنْفُثُ فَجَعَلْنَا نُشَبِّہُ نَفْثَہُ نَفْثَ آکِلِ الزَّبِیبِ، وَکَانَ یَدُورُ عَلٰی نِسَائِہِ، فَلَمَّا اشْتَکٰی شَکْوَاہُ اسْتَأْذَنَہُنَّ أَنَّ یَکُونَ فِی بَیْتِ عَائِشَۃَ وَیَدُرْنَ عَلَیْہِ، فَأَذِنَّ لَہُ فَدَخَلَ رَسُولُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بَیْنَرَجُلَیْنِ مُتَّکِئًا عَلَیْہِمَا، أَحَدُہُمَا عَبَّاسٌ، وَرِجْلَاہُ تَخُطَّانِ فِی الْأَرْضِ، قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: أَفَمَا أَخْبَرَتْکَ مَنِ الْآخَرُ؟ قَالَ: لَا، قَالَ: ہُوَ عَلِیٌّ۔ (مسند احمد: ۲۴۶۰۴)
عبید اللہ کا بیان ہے کہ ہم ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے ہاں گئے اور ہم نے عرص کیا: اے ام المؤمنین آپ ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مرض الموت کے بارے میں بتائیں، انہوں نے کہا: آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بیمار ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے منہ سے ایک آواز آئی، ہم منقی کھانے والے سے اس آواز کی تشبیہ دے سکتے ہیں، اس سے قبل اور بیماری کے دنوں میں بھی، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی ازواج کے ہاں باری باری جاتے رہے، جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم زیادہ نڈھال ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی ازواج سے بیتِ عائشہ رضی اللہ عنہا میں وقت گزارنے کی اجازت طلب کی کہ وہ سب وہیں آکر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خبر گیری کرلیا کریں، سب نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اس بات کی اجازت دے دی، پس اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دو آدمیوں کے سہارے تشریف لائے، ان دو میں سے ایک سیدنا عباس رضی اللہ عنہ تھے، اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاؤں زمین پر گھسٹ رہے تھے۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ نے عبیداللہ سے کہا: کیا ام المؤمنین نے تمہیں دوسرے آدمی کے نام سے آگاہ نہیں کیا کہ عباس رضی اللہ عنہ کے ساتھ دوسرا آدمی کون تھا؟ عبیداللہ نے کہا: جی نہیں، تو انھوں نے بتلایا کہ دوسرے آدمی سیدنا علی رضی اللہ عنہ تھے۔
Musnad Ahmad, Hadith(10980)