Blog
Books



۔ (۱۰۹۹۴)۔ عَنْ سُلَیْمَانَ بْنِ اَبِیْ مُسْلِمٍ خَالِ ابْنِ اَبِیْ نَجِیْحٍ سَمِعَ سَعِیْدَ بْنَ جُبَیْرٍیَقُوْلُ: قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ یَوْمُ الْخَمِیسِ: وَمَا یَوْمُ الْخَمِیسِ، ثُمَّ بَکٰی حَتَّی بَلَّ دَمْعُہُ، وَقَالَ مَرَّۃً: دُمُوعُہُ الْحَصَی، قُلْنَا: یَا أَبَا الْعَبَّاسِ وَمَا یَوْمُ الْخَمِیسِ، قَالَ: اشْتَدَّ بِرَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَجَعُہُ، فَقَالَ: ((ائْتُونِی أَکْتُبْ لَکُمْ کِتَابًا لَا تَضِلُّوا بَعْدَہُ أَبَدًا۔)) فَتَنَازَعُوا وَلَا یَنْبَغِی عِنْدَ نَبِیٍّ تَنَازُعٌ فَقَالُوا: مَا شَأْنُہُ أَہَجَرَ، قَالَ سُفْیَانُ: یَعْنِی ہَذَی اسْتَفْہِمُوہُ، فَذَہَبُوا یُعِیدُونَ عَلَیْہِ، فَقَالَ: ((دَعُونِی فَالَّذِی أَنَا فِیہِ خَیْرٌ مِمَّا تَدْعُونِّی إِلَیْہِ۔)) وَأَمَرَ بِثَلَاثٍ، وَقَالَ سُفْیَانُ مَرَّۃً: أَوْصٰی بِثَلَاثٍ، قَالَ: ((أَخْرِجُوا الْمُشْرِکِینَ مِنْ جَزِیرَۃِ الْعَرَبِ، وَأَجِیزُوا الْوَفْدَ بِنَحْوِ مَا کُنْتُ أُجِیزُہُمْ۔)) وَسَکَتَ سَعِیدٌ عَنِ الثَّالِثَۃِ فَلَا أَدْرِی أَسَکَتَ عَنْہَا عَمْدًا، وَقَالَ مَرَّۃً: أَوْ نَسِیَہَا، و قَالَ سُفْیَانُ مَرَّۃً: وَإِمَّا أَنْ یَکُونَ تَرَکَہَا أَوْ نَسِیَہَا۔ (مسند احمد: ۱۹۳۵)
سعید بن جبیر سے مروی ہے کہ سیدنا ابن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: جمعرات کا دن، کیسا جمعرات کا دن؟ یہ کہہ کر وہ رونے لگے اور اس قدر روئے کہ ان کے آنسوؤں سے کنکریاں بھیگ گئیں، ہم نے عرض کیا: اے ابو العباس ! جمعرات کے دن کیا ہوا تھا؟ انھوں نے کہا: اس روز رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی بیماری شدت اختیار کر گئی تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا تم( کاغذ، قلم) میرے پاس لے آؤ۔ میں تمہیں ایک ایسی تحریر لکھ دوں کہ تم اس کے بعد کبھی گمراہ نہیں ہو گے، حاضرین کا آپس میں تنازعہ ہو گیا، حالانکہ نبی کے پاس آپس میں تنازعہ کرنا مناسب نہیں تھا، لوگ ایک دوسرے سے کہنے لگے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو کیا ہوا؟ کیا آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بیماری کی شدت یا غشی میں کچھ کہہ رہے ہیں؟ امام سفیان نے ایک مرتبہ یوں کہاکہ آیا آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو ہذیان ہوا ہے؟ ذرا آپ سے دوبارہ پوچھو، لوگ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی طرف متوجہ ہوئے اور بار باردریافت کرنے لگے۔ ( کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے کیا ارشاد فرمایا ہے؟) آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: مجھے میرے حال پر رہنے دو، تم مجھے جس طرف بلانا چاہتے ہو، اس کی نسبت میں جس حال میں میں ہوں، وہ بہتر ہے۔ پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے تین باتوں کا حکم دیا، سفیان راوی نے کہا کہ تین باتوں کی وصیت فرمائی، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: مشرکین کو جزیرۂ عرب سے نکال دینا اور باہر سے آنے والے وفود کا اسی طرح خیال رکھنا جس طرح میں ان کا خیال رکھتا تھا۔ اور تیسری بات کے ذکر کرنے سے سعید بن جبیر نے سکوت اختیار کیا، ان کے شاگرد کہتے ہیں: میں نہیں جانتا کہ آیا وہ عمداً خاموش رہے تھے یا تیسری بات کو بھول گئے تھے۔ سفیان نے ایک مرتبہ کہا کہ یا تو انہوں نے عمداً تیسری بات کو چھوڑ دیا تھا یا بھول گئے تھے۔
Musnad Ahmad, Hadith(10994)
Background
Arabic

Urdu

English