۔ (۱۱۰۰۷)۔ عَنْ ہِشَامِ بْنِ عُرْوَۃَ قَالَ: أَخْبَرَنِی أَبِی: أَنَّ عَائِشَۃَ قَالَتْ لَہُ: یَا ابْنَ أُخْتِی! لَقَدْ رَأَیْتُ مِنْ تَعْظِیمِ رَسُولِ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عَمَّہُ أَمْرًا عَجِیبًا، وَذٰلِکَ أَنَّ رَسُولَ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کَانَتْ تَأْخُذُہُ الْخَاصِرَۃُ فَیَشْتَدُّ بِہِ جِدًّا، فَکُنَّا نَقُولُ: أَخَذَ رَسُولَ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عِرْقُ الْکُلْیَۃِ لَا نَہْتَدِی أَنْ نَقُولَ الْخَاصِرَۃَ، ثُمَّ أَخَذَتْ رَسُولَ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یَوْمًا فَاشْتَدَّتْ بِہِ جِدًّا حَتّٰی أُغْمِیَ عَلَیْہِ، وَخِفْنَا
عَلَیْہِ، وَفَزِعَ النَّاسُ إِلَیْہِ، فَظَنَنَّا أَنَّ بِہِ ذَاتَ الْجَنْبِ فَلَدَدْنَاہُ، ثُمَّ سُرِّیَ عَنْ رَسُولِ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وَأَفَاقَ، فَعَرَفَ أَنَّہُ قَدْ لُدَّ وَوَجَدَ أَثَرَ اللَّدُودِ، فَقَالَ: ((ظَنَنْتُمْ أَنَّ اللّٰہَ عَزَّ وَجَلَّ سَلَّطَہَا عَلَیَّ مَا کَانَ اللّٰہُ یُسَلِّطُہَا عَلَیَّ، وَالَّذِی نَفْسِی بِیَدِہِ لَا یَبْقٰی فِی الْبَیْتِ أَحَدٌ إِلَّا لُدَّ إِلَّا عَمِّی۔)) فَرَأَیْتُہُمْیَلُدُّونَہُمْ رَجُلًا رَجُلًا قَالَتْ عَائِشَۃُ: وَمَنْ فِی الْبَیْتِیَوْمَئِذٍ فَتَذْکُرُ فَضْلَہُمْ فَلُدَّ الرِّجَالُ أَجْمَعُونَ، وَبَلَغَ اللُّدُودُ أَزْوَاجَ النَّبِیِّ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فَلُدِدْنَ امْرَأَۃٌ امْرَأَۃٌ حَتّٰی بَلَغَ اللُّدُودُ امْرَأَۃً مِنَّا، قَالَ ابْنُ أَبِی الزِّنَادِ: لَا أَعْلَمُہَا إِلَّا مَیْمُونَۃَ، قَالَ: وَقَالَ بَعْضُ النَّاسِ: أُمُّ سَلَمَۃَ، قَالَتْ: إِنِّی وَاللّٰہِ! صَائِمَۃٌ، فَقُلْنَا: بِئْسَمَا ظَنَنْتِ أَنْ نَتْرُکَکِ، وَقَدْ أَقْسَمَ رَسُولُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فَلَدَدْنَاہَا، وَاللّٰہِ! یَا ابْنَ أُخْتِی! وَإِنَّہَا لَصَائِمَۃٌ۔ (مسند احمد: ۲۵۳۸۲)
ہشام بن عروہ سے مروی ہے کہ میرے والد( عروہ) نے مجھے بتلایا کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے ان ( عروہ) سے کہا: میرے بھانجے! میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف سے اپنے چچا (عباس رضی اللہ عنہ ) کی تعظیم کے حوالے سے ایک عجیب بات دیکھی، آپ کو کوکھ میں شدید درد ہوا کرتا تھا، ہم کہتے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو گردے کی تکلیف ہے، ہم اسے کوکھ کا درد نہیں کہتے تھے، ایک دن اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو پھر یہ درد اس قدر شدت سے اٹھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر غشی طاری ہو گئی اور ہمیں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی کا خطرہ محسوس ہونے لگا، سب لوگ گھبرا کر آپ کی طرف لپکے، ہم نے سمجھا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ذات الجنب کی بیماری لاحق ہو گئی ہے، اس لیے ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے منہ کے ایک گوشے میں دوا ڈال دی، کچھ دیر بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وہ کیفیت زائل ہو گئی، جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو افاقہ ہونے پر احساس ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے منہ میں دوا ڈالی گئی تھی اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے منہ میں دوا کا اثر بھی محسوس کیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: تمہارا خیال ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس بیماری کو مجھ پر مسلط کیا ہے، اللہ تعالیٰ ہرگز اسے مجھ پر مسلط نہیں کرے گا، اس ذات کی قسم! جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، گھر میں جس قدر افراد ہیں، میرے چچا یعنی عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ کے سوا باقی ہر شخص کے منہ میں یہی دوا ڈالی جائے۔ میں نے دیکھا کہ ایک ایک کے منہ میں وہ دوا ڈال رہے تھے، اس روز گھر میں جتنے لوگ موجود تھے، سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے تمام افراد کے نام اور ان کے فضائل بھی ذکر کئے، سب مردوں کے منہ میں دوا ڈالی جا چکی تو ازواج مطہرات کی باری آئی۔ ان میں سے ہر اک کے منہ میں بھی دوا ڈالی گئی۔ ابن ابی لزناد کی روایت کے مطابق سیدہ میمونہ رضی اللہ عنہا اور دوسرے حضرات کے بیان کے مطابق ام المؤمنین سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا کی باری آئی تو انہوں نے کہا: للہ کی قسم میں نے توروزہ رکھا ہوا ہے، لیکن ہم نے کہا: تم نے غلط سمجھا کہ ہم تمہیں چھوڑ دیں گی، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تو اس بات کی قسم اٹھائی ہوئی ہے۔ دختر زادے! اللہ کی قسم! وہ روزہ سے تھیں اور ہم نے ان کے منہ میں بھی دوا انڈیل دی۔
Musnad Ahmad, Hadith(11007)