۔ (۱۱۰۷۸)۔ (وَعَنْہَا مِنْ طَرِیْقٍ ثَانٍ) قَالَتْ:
فَغَضِبَتْ فَاطِمَۃُ عَلَیْہَا السَّلَامُ فَہَجَرَتْ أَبَا بَکْرٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ، فَلَمْ تَزَلْ مُہَاجِرَتَہُ حَتّٰی تُوُفِّیَتْ، قَالَ: وَعَاشَتْ بَعْدَ وَفَاۃِ رَسُولِ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سِتَّۃَ أَشْہُرٍ، قَالَ: وَکَانَتْ فَاطِمَۃُ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا تَسْأَلُ أَبَا بَکْرٍ نَصِیبَہَا مِمَّا تَرَکَ رَسُولُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مِنْ خَیْبَرَ وَفَدَکَ وَصَدَقَتِہِ بِالْمَدِینَۃِ، فَأَبٰی أَبُو بَکْرٍ عَلَیْہَا ذٰلِکَ وَقَالَ: لَسْتُ تَارِکًا شَیْئًا، کَانَ رَسُولُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یَعْمَلُ بِہِ إِلَّا عَمِلْتُ بِہِ، وَإِنِّی أَخْشٰی إِنْ تَرَکْتُ شَیْئًا مِنْ أَمْرِہِ أَنْ أَزِیغَ، فَأَمَّا صَدَقَتُہُ بِالْمَدِینَۃِ فَدَفَعَہَا عُمَرُ إِلٰی عَلِیٍّ وَعَبَّاسٍ فَغَلَبَہُ عَلَیْہَا عَلِیٌّ، وَأَمَّا خَیْبَرُ وَفَدَکُ فَأَمْسَکَہُمَا عُمَرُ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ وَقَالَ: ہُمَا صَدَقَۃُ رَسُولِ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کَانَتَا لِحُقُوقِہِ الَّتِی تَعْرُوْہُ وَنَوَائِبِہِ، وَأَمْرُہُمَا إِلٰی مَنْ وَلِیَ الْأَمْرَ، قَالَ: فَہُمَا عَلٰی ذٰلِکَ الْیَوْمَ۔ (مسند احمد: ۲۵)
۔(دوسری سند) سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے یہی حدیث سابق روایت کی مانند مروی ہے، البتہ اس میں تفصیل اس طرح ہے:سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا ناراض ہو گئیں اور سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ سے قطع تعلق کر لیا اور یہ سلسلہ ان کی وفات تک جاری رہا، سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات کے بعد چھ ماہ تک زندہ رہی تھیں۔ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خیبر والے اور فدک والے اور مدینہ میں موجود حصے سے اپنے حصے کا مطالبہ کرتی تھیں۔ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے ان کو حصہ دینے سے انکار کیا اور کہا: اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جس طرح کیا کرتے تھے، میں بھی اسی طرح کروں گا اور اس میں سے کسی بھی عمل کو ترک نہیں کروں گا، مجھے ڈر ہے کہ اگر میں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے طرز عمل میں سے کچھ بھی چھوڑ دیا تو میں راہ راست سے بھٹک جاؤں گا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا جو صدقہ یعنی مال مدینہ منورہ میں تھا، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اسے سیدنا علی رضی اللہ عنہ اور سیدنا عباس رضی اللہ عنہ کے سپرد کر دیا تھا اور اس پر سیدنا علی رضی اللہ عنہ غالب آگئے تھے۔ البتہ خیبر اور فدک والے حصوں کو عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے کنٹرول میں ہی رکھا اور کہا کہ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف سے صدقہ ہیں،یہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو پیش آنے والی ضروریات اور حقوق کے لیے تھے، ان کا انتظام اور کنٹرول حاکمِ وقت کے پاس رہے گا، وہ اب تک اسی طرح چلے آرہے ہیں۔
Musnad Ahmad, Hadith(11078)