۔ (۱۱۱۶۶)۔ (وَعَنْہٗمِنْطَرِیْقٍ ثَانٍ) مِثْلُہُ وَزَادَ: قَالَ ثَابِتٌ: فَقُلْتُ: یَا أَبَا حَمْزَۃَ! أَلَسْتَ کَأَنَّکَ تَنْظُرُ إِلَی رَسُولِ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وَکَأَنَّکَ تَسْمَعُ إِلٰی نَغَمَتِہِ؟ فَقَالَ: بَلٰی، وَاللّٰہِ! إِنِّی لَأَرْجُو أَنْ أَلْقَاہُیَوْمَ الْقِیَامَۃِ فَأَقُولَ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ خُوَیْدِمُکَ، قَالَ: خَدَمْتُہُ عَشْرَ سِنِینَ بِالْمَدِینَۃِ وَأَنَا غُلَامٌ، لَیْسَ کُلُّ أَمْرِی کَمَا یَشْتَہِی صَاحِبِی أَنْ یَکُونَ، مَا قَالَ لِی فِیہَا أُفٍّ، وَلَا قَالَ لِی لِمَ فَعَلْتَ ہٰذَا وَأَلَّا فَعَلْتَ ہٰذَا۔ (مسند احمد: ۱۳۳۵۰)
۔(دوسری سند) یہ حدیث گزشتہ حدیث ہی کی مانند ہے، البتہ اس میں یہ اضافہ ہے: ثابت کہتے ہیں: میں نے عرض کیا: اے ابو حمزہ! کیا آپ کو اب بھی ایسا محسوس نہیں ہوتا کہ گویا آپ اب بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھ اور سن رہے ہوں؟ انھوں نے کہا: جی بالکل، مجھے یہ بھی امید ہے کہ میری قیامت کے دن آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ملاقات ہوگی تو میں عرض کروں گا: اللہ کے رسول ! میں آپ کا چھوٹا سا خادم۔ میں نے مدینہ منورہ میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دس برس خدمت کی ہے، جبکہ میں بچہ تھا اور میرا ہر کام اس طرح نہیں ہوتا تھا، جیسے میرے صاحب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم چاہتے تھے، لیکن (اس طویل دورانیے میں) آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کبھی بھی مجھے اف تک نہ کہا اور کبھی میرے کام پر اعتراض کرتے ہوئے نہیں فرمایا کہ تو نے یہ کام کیوں کیا ہے؟ تو نے یہ کام کیوں نہیں کیا۔
Musnad Ahmad, Hadith(11166)