Blog
Books



۔ (۱۱۲۲۴)۔ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ أَبِی لَیْلٰی، عَنِ الْمِقْدَادِ قَالَ: أَقْبَلْتُ أَنَا وَصَاحِبَانِ لِی قَدْ ذَہَبَتْ أَسْمَاعُنَا وَأَبْصَارُنَا مِنَ الْجَہْدِ، قَالَ: فَجَعَلْنَا نَعْرِضُ أَنْفُسَنَا عَلٰی أَصْحَابِ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم لَیْسَ أَحَدٌ یَقْبَلُنَا، قَالَ: فَانْطَلَقْنَا إِلٰی رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَانْطَلَقَ بِنَا إِلٰی أَہْلِہِ فَإِذَا ثَلَاثُ أَعْنُزٍ، وَفِیْ رِوَایَۃٍ اَرْبَعُ اَعْنُزٍ فَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((احْتَلِبُوا ہٰذَا اللَّبَنَ بَیْنَنَا)) قَالَ: فَکُنَّا نَحْتَلِبُ فَیَشْرَبُ کُلُّ إِنْسَانٍ نَصِیبَہُ، وَنَرْفَعُ لِرَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نَصِیبَہُ، فَیَجِیئُ مِنَ اللَّیْلِ فَیُسَلِّمُ تَسْلِیمًا لَا یُوقِظُ نَائِمًا وَیُسْمِعُ الْیَقْظَانَ، ثُمَّ یَأْتِی الْمَسْجِدَ فَیُصَلِّی، ثُمَّ یَأْتِی شَرَابَہُ فَیَشْرَبُہُ، قَالَ: فَأَتَانِی الشَّیْطَانُ ذَاتَ لَیْلَۃٍ، فَقَالَ: مُحَمَّدٌ یَأْتِی الْأَنْصَارَ فَیُتْحِفُونَہُ وَیُصِیبُ عِنْدَہُمْ مَا بِہِ حَاجَۃٌ إِلٰی ہٰذِہِ الْجُرْعَۃِ فَاشْرَبْہَا، قَالَ: مَا زَالَ یُزَیِّنُ لِی حَتّٰی شَرِبْتُہَا، فَلَمَّا وَغَلَتْ فِی بَطْنِی وَعَرَفَ أَنَّہُ لَیْسَ إِلَیْہَا سَبِیلٌ، قَالَ: نَدَّمَنِی، فَقَالَ: وَیْحَکَ مَا صَنَعْتَ شَرِبْتَ شَرَابَ مُحَمَّدٍ فَیَجِیئُ وَلَا یَرَاہُ فَیَدْعُو عَلَیْکَ فَتَہْلِکَ فَتَذْہَبُ دُنْیَاکَ وَآخِرَتُکَ، قَالَ: وَعَلَیَّ شَمْلَۃٌ مِنْ صُوفٍ کُلَّمَا رَفَعْتُہَا عَلٰی رَأْسِی خَرَجَتْ قَدَمَایَ وَإِذَا أَرْسَلْتُ عَلٰی قَدَمَیَّ خَرَجَ رَأْسِی وَجَعَلَ لَایَجِیئُ لِی نَوْمٌ، قَالَ: وَأَمَّا صَاحِبَایَ فَنَامَا، فَجَائَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَسَلَّمَ کَمَا کَانَ یُسَلِّمُ، ثُمَّ أَتَی الْمَسْجِدَ فَصَلّٰی فَأَتٰی شَرَابَہُ فَکَشَفَ عَنْہُ فَلَمْ یَجِدْ فِیہِ شَیْئًا فَرَفَعَ رَأْسَہُ إِلَی السَّمَائِ، قَالَ: قُلْتُ: الْآنَ یَدْعُو عَلَیَّ فَأَہْلِکُ، فَقَالَ: ((اَللّّٰہُمَّ أَطْعِمْ مَنْ أَطْعَمَنِی وَاسْقِ مَنْ سَقَانِی)) قَالَ: فَعَمَدْتُ إِلَی الشَّمْلَۃِ فَشَدَدْتُہَا عَلیَّ فَأَخَذْتُ الشَّفْرَۃَ فَانْطَلَقْتُ إِلَی الْأَعْنُزِ أَجُسُّہُنَّ أَیُّہُنَّ أَسْمَنُ فَأَذْبَحُ لِرَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَإِذَا ہُنَّ حُفَّلٌ کُلُّہُنَّ فَعَمَدْتُ إِلٰی إِنَائٍ لِآلِ مُحَمَّدٍ، مَا کَانُوا یَطْمَعُونَ أَنْ یَحْلِبُوا فِیہِ، وَقَالَ أَبُو النَّضْرِ مَرَّۃً أُخْرٰی: أَنْ یَحْتَلِبُوا فِیہِ، فَحَلَبْتُ فِیہِ حَتّٰی عَلَتْہُ الرَّغْوَۃُ، ثُمَّ جِئْتُ بِہِ إِلٰی رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقَالَ: ((أَمَا شَرِبْتُمْ شَرَابَکُمُ اللَّیْلَۃَیَا مِقْدَادُ؟)) قَالَ: قُلْتُ اشْرَبْ یَا رَسُولَ اللّٰہِ فَشَرِبَ ثُمَّ نَاوَلَنِی، فَقُلْتُ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ اشْرَبْ فَشَرِبَ ثُمَّ نَاوَلَنِی، فَأَخَذْتُ مَا بَقِیَ فَشَرِبْتُ، فَلَمَّا عَرَفْتُ أَنَّ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَدْ رَوِیَ فَأَصَابَتْنِی دَعْوَتُہُ ضَحِکْتُ حَتّٰی أُلْقِیتُ إِلَی الْأَرْضِ، قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((إِحْدٰی سَوْآتِکَ یَا مِقْدَادُ! قَالَ: قُلْتُ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ کَانَ مِنْ أَمْرِی کَذَا صَنَعْتُ کَذَا، فَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((مَا کَانَتْ ہٰذِہِ إِلَّا رَحْمَۃً مِنَ اللّٰہِ، أَلَا کُنْتَ آذَنْتَنِی نُوقِظُ صَاحِبَیْکَ ہٰذَیْنِ فَیُصِیبَانِ مِنْہَا؟)) قَالَ: قُلْتُ: وَالَّذِی بَعَثَکَ بِالْحَقِّ مَا أُبَالِی إِذَا أَصَبْتَہَا وَأَصَبْتُہَا مَعَکَ مَنْ أَصَابَہَا مِنَ النَّاسِ،(وَفِیْ لَفْظٍ: إِذَا أَصَابَتْنِی وَإِیَّاکَ الْبَرَکَۃُ فَمَا أُبَالِی مَنْ أَخْطَأَتْ)۔ (مسند احمد: ۲۴۳۱۳)
سیدنا مقداد بن اسود ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میں اور میرے دو ساتھی اس حال میں آئے کہ بھوک کی شدت کی وجہ سے ہمارے کان اور آنکھیں کام کرنے سے جواب دے چکے تھے (ایک روایت میں ہے کہ ہم شدید بھوک سے دو چار تھے) ہم اپنے آپ کو صحابہ کرام کے سامنے پیش کرنے لگے (تاکہ کوئی ہمیں اپنامہمان بنالے) لیکن کوئی بھی ہمیں بطورِ مہمان لے جانے کے لیے تیار نہ ہوا، ہم رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں چلے گئے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ہمیں اپنے گھر لے گئے، وہاں تین (اور ایک راویت کے مطابق چار) بکریاں موجود تھیں۔ اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تم ان بکریوں کا دودھ دوہ کر ہمارے درمیان تقسیم کرو۔ پس ہم دودھ دوہتے اور ہر آدمی اپنا حصہ نوش کر لیتا اور ہم رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا حصہ بچا رکھتے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم رات کو کسی وقت تشریف لاتے تو اس قدر آواز سے سلام کہتے کہ کسی سوئے ہوئے کو بیدار نہ کرتے اور جاگتا آدمی سن لیتا۔ پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اپنی نماز والی جگہ پر تشریف لاتے، نماز ادا فرماتے، پھر آپ دودھ والی جگہ جا کر دودھ نوش فرماتے۔ سیدنا مقداد ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں کہ ایک رات شیطان نے میرے دل میں وسوسہ ڈالا کہ محمد ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم تو انصارکے ساتھ جاتے ہیں، وہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو تحائف پیش کرتے ہیں اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ان کے ہاں سے کچھ نہ کچھ کھا پی آتے ہیں، پس آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو ان چند گھونٹوں کی چنداں حاجت نہیں ہوتی۔میں یہ پی لوں تو اس سے کیا ہو گا؟ وہ بار بار مجھے یہ خیال دلاتا اور اس بات کو میرے لیے خوش نما کرتا رہا، حتی کہ میں وہ دودھ پی گیا۔ جب دودھ میرے پیٹ میں پہنچ گیا اور مجھے یقین ہو گیا کہ اب اس کے نکلنے کی کوئی بھی صورت نہیں تو شیطان مجھے چھوڑ کر فرار ہو گیا۔ اور کہہ گیا کہ تجھ پر افسوس ہے۔ یہ تو نے کیا کیا؟ تم محمد ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے حصے کا دودھ پی گئے، وہ آکر دودھ نہ پائیں گے تو تجھ پر بددعا کریں گے اور تم ہلاک ہو جائو گے، تمہاری تو دنیا بھی تباہ اور آخرت بھی برباد ہو جائے گی، میرے اوپر ایک چھوٹی سی ادنی چادر تھی، میں اسے سر پر ڈالتااتو پائوں ننگے ہو جاتے اور اگر پائوں پر ڈالتا تو سر چادر سے باہر نکل آتا،بس میں اسی کشمکش میں رہا اور مجھے نیند نہ آئی، میرے دونوں ساتھی آرام سے سوئے ہوئے تھے۔ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم تشریف لائے اور حسب معمول سلام کہا، پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے نماز کی جگہ پر نماز ادا کی۔ اس کے بعد آپ دودھ کے پاس گئے۔ ڈھکنا اٹھایا تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے برتن میں کچھ نہ پایا۔ آپ نے آسمان کی طرف سر اٹھایا، میں نے سوچا کہ اب آپ مجھ پر بد دعا کریں گے اور میں تباہ و برباد ہو جائوں گا۔ مگر آپ نے فرمایا: اَللّّٰہُمَّ أَطْعِمْ مَنْ أَطْعَمَنِی وَاسْقِ مَنْ سَقَانِی (یا اللہ! جس نے مجھے کھانا کھلایا تو اسے کھانا عطا فرما اور جس نے مجھے کچھ پلایاتو اسے پلا)۔ سیدنا مقداد ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں کہ میں نے چادر کھینچ کر اپنے اوپر کس لی اور چھری سنبھالی اور میں بکریوں کو ٹٹولنے لگا کہ دیکھوں ان میں سے کونسی بکری زیادہ موٹی تازی ہے کہ تاکہ اسے اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے لیے ذبح کروں۔ میں نے دیکھا تو ان سب کے تھن دودھ سے لبریز تھے، میں نے محمد ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے خانوادہ کے ایک ایسے برتن کا قصد کیا، جس میں دودھ دوھنے کی انہیں امید نہ تھی۔1 میں نے اس میں دودھ دوہایہاں تک کہ اس پر جھاگ آگئی، پھر میں وہ دودھ لے کر رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے دریافت فرمایا: مقداد! کیا آج رات آپ لوگوں نے دودھ نوش نہیں کیا؟ میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! آپ نوش فرمائیں۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے دودھ پیا ! یعنی اتنا زیادہ دودھ نہیں ہوتا تھا کہ ان کو امید ہو کہ اس برتن میں بھی دودھ ڈالنے کی ضرورت محسوس ہو گی گویا وہ دودھ والا برتن زائد پڑا رہتا تھا۔ (عبداللہ رفیق) اور پھر مجھے عنایت فرمایا۔ میں نے پھر عرض کیا: اے اللہ کے رسول! آپ مزید پئیں۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے نوش فرما کر برتن مجھے تھما دیا، اس کے بعد جو بچاوہ میں نے پیا، جب مجھے یقین ہوا کہ اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم خوب سیر ہو چکے ہیں اور میں آپ کی دعا کا حق دار بن چکا ہوں۔ میں اس قدر ہنسا کہ ہنستے ہنستے زمین پر لیٹ گیا۔ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: مقداد! یہ تمہاری ایک نا مناسب حرکت ہے۔ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! میرے ساتھ تو آج یہ معاملہ پیش آیا اور میں یہ کام کر بیٹھا تھا۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: یہ اللہ کی رحمت تھی (اور دوسری روایت کے لفظ ہیں: یہ آسمان سے نازل شدہ برکت تھی) تم نے پہلے مجھے کیوں نہ بتلایا، ہم تمہارے ان دونوں ساتھیوں کو بھی بیدار کر لیتے اور وہ بھی اس سے فیضیاب ہو جاتے۔ مقداد کہتے ہیں:میں نے عرض کیا: اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ مبعوث کیا ہے!جب آپ اور آپ کا ساتھ میںاس برکت کو حاصل کر چکا ہوں تو اب مجھے اس بات کی کچھ پرواہ نہیں کہ کسی اور کو ملی ہے یا نہیں۔ ایک روایت کے الفاظ یوں ہیں کہ جب آپ کو اور مجھے یہ برکت نصیب ہو چکی ہے تو مجھے کوئی پرواہ نہیں کہ کون اس سے محروم رہا۔
Musnad Ahmad, Hadith(11224)
Background
Arabic

Urdu

English