۔ (۱۱۲۸۲)۔ (وَعَنْہُ مِنْ طَرِیْقٍ ثَانٍ بِنَحْوِہِ) وَفِیْہِ: فَصَنَعُوْالَہُ ثَلَاثَ دَرَجَاتٍ، فَقَامَ النَّبِیُّ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کَمَا کَانَ یَقُوْمُ، فَصَغَی الْجِذْعُ إِلَیْہِ، فَقَالَ لَہٗ: ((اسْکُنْ۔)) ثُمَّقَالَلِأَصْحَابِہِ: ((ھٰذَاالْجِذْعُحَنَّإِلَیَّ۔)) فَقَالَ لَہٗالنَّبِیُّ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم : ((اُسْکُنْ! إِنْ تَشَأْ غَرَسْتُکَ فِی الْجَنَّۃِ، فَتَأْکَلَ مِنْکَ الصَّالِحُوْنَ، وَإِنْ تَشَأْ أُعِیْدُکَ کَمَا کُنْتَ رَطْباً۔)) فَاخْتَارَ الآخِرَۃَ عَلَی الدُّنْیَا، فَلَمَّا قُبِضَ النَّبِیُّ دُفِعَ إِلٰی أُبَیٍّ، فَلَمْیَزَلْ عِنْدَہٗحَتّٰی أَکَلَتْہُ الأرْضَۃُ۔ (مسند احمد: (۲۱۵۸۰)
۔(دوسری سند) اس میں یہ ہے کہ صحابہ نے آپ کے لیے تین سیڑھیوں والا منبر تیار کیا، جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حسب معمول خطبہ دینے کے لیے کھڑے ہوئے تو وہ تنا آپ سے جدائی پر رونے لگا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس سے فرمایا: خاموش ہو جا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صحابہ سے فرمایا: یہ تنا میری جدائی پر رویا ہے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس سے فرمایا: خاموش ہو جا، اگر تو چاہتاہے تو میں تجھے جنت میں لگا دوں تاکہ صالحین تیرا پھل کھائیں اور اگر تو چاہے تو تجھے پہلے کی طرح تروتازہ کردوں۔ پس اس نے دنیا پر آخرت کو ترجیح دی، جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے وفات پائی تو وہ تنا سیدنا ابیبن کعب رضی اللہ عنہ کے حوالے کر دیا گیا۔ وہ انہی کے پاس رہا یہاں تک کہ اسے دیمک چاٹ گئی۔
Musnad Ahmad, Hadith(11282)