۔ (۱۱۳۱۴)۔ (وََعَنْہُ مِنْ طَرِیْقٍ ثَانٍ): أَنَّ أَبَاہُ تُوُفِّیَ وَعَلَیْہِ دَیْنٌ، قَالَ: فَأَتَیْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وَقُلْتُ لَہٗ: إِنَّأَبِی تُوُفِّیَ وَعَلَیْہِ دَیْنٌ وَلَیْسَ عِنْدِی إِلَّا مَا یُخْرِجُ نَخْلُہٗ،فَلَایَبْلُغْ مَا یَخْرُجُ سُدُسَ مَا عَلَیْہِ، قَالَ: فَانْطَلِقْ مَعِی لِکَیْلَا تَفَحَّشَّ عَلَیَّ الْغُرَمَائُ، فَمَشٰی
حَوْلَ بَیْدَرٍ مِنْ بَیَادِرِ التَّمْرِ ثُمَّ دَعَا وَجَلَسَ عَلَیْہِ، وَقَالَ: ((أَیْنَ غُرَمَاؤُہٗ؟)) فَأَوْفَاھُمُالَّذِی لَھُمْ، وَبَقِیَ مِثْلُ الَّذِی أَعْطَاھُمْ۔ (مسند احمد: ۱۴۹۹۷)
۔(دوسری سند) سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے یہ بھی مروی ہے کہ ان کے والد مقروض شہید ہوئے۔ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں جا کر عرض کی کہ میرے والد فوت ہوگئے ہیں اور ان کے ذمے قرض ہے،جبکہ میرے پاس کھجوروں کے پھل کے سوا ادائیگی کے لیے اور کچھ نہیں ہے اور کھجوروں کا پھل قرض کا چھٹا حصہ بھی نہیں ہوگا۔ تو آپ میرے ساتھ چلیں تاکہ قرض خواہ میرے ساتھ سخت کلام نہ کریں۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کھجور کے ڈھیروں میں سے ایک ڈھیر کے گرد چکر کاٹنے لگے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دعا کی اور بیٹھ گئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دریافت فرمایا: اس کے قرض خواہ کہاں ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کے حق ان کو پورے کر دیئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جس قدر ان کو دیا اتنا ہی پھل باقی بچا رہا۔
Musnad Ahmad, Hadith(11314)