۔ (۱/۱۱۳۲۲)۔ عَنْ ابْنِ مَسْعُودٍ، قَالَ: کُنْتُ أَرْعَی غَنَمًا لِعُقْبَۃَ بْنِ أَبِی مُعَیْطٍ، فَمَرَّ بِی رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَأَبُو بَکْرٍ، فَقَالَ: ((یَا غُلَامُ! ہَلْ مِنْ لَبَنٍ؟)) قَالَ: قُلْتُ: نَعَمْ، وَلَکِنِّی مُؤْتَمَنٌ، قَالَ: ((فَہَلْ مِنْ شَاۃٍ لَمْ یَنْزُ عَلَیْہَا الْفَحْلُ؟)) فَأَتَیْتُہُ بِشَاۃٍ، فَمَسَحَ ضَرْعَہَا، فَنَزَلَ لَبَنٌ، فَحَلَبَہُ فِی إِنَائٍ، فَشَرِبَ، وَسَقَی أَبَا بَکْرٍ، ثُمَّ قَالَ لِلضَّرْعِ: ((اِقْلِصْ۔)) فَقَلَصَ، قَالَ: ثُمَّ أَتَیْتُہُ بَعْدَ ہَذَا، فَقُلْتُ: یَا رَسُولَ اللَّہِ، عَلِّمْنِی مِنْ ہَذَا الْقَوْلِ، قَالَ: فَمَسَحَ رَأْسِی، وَقَال: ((یَرْحَمُکَ اللَّہُ، فَإِنَّکَ غُلَیِّمٌ مُعَلَّمٌ۔)) وَفِیْ رِوَایۃ: ثُمَّ أَتَاہُ أَبُو بَکْرٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ بِصَخْرَۃٍ مُنْقَعِرَۃٍ، فَاحْتَلَبَ فِیہَا، فَشَرِبَ، وَشَرِبَ أَبُو بَکْرٍ، ثُمَّ شَرِبْتُ، ثُمَّ قَالَ لِلضَّرْعِ: ((اقْلِصْ۔)) فَقَلَصَ، فَأَتَیْتُہُ بَعْدَ ذَلِکَ، فَقُلْت: عَلِّمْنِی مِنْ ہَذَا الْقَوْلِ؟ قَال: ((إِنَّکَ غُلَامٌ مُعَلَّمٌ۔)) قَال: فَأَخَذْتُ مِنْ فِیہِ سَبْعِینَ سُورَۃً، لَا یُنَازِعُنِی فِیہَا أَحَدٌ۔ (مسند احمد: ۳۵۹۸)
سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میں عقبہ بن ابو معیط کی بکریاں چرایا کرتا تھا، ایک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ میرے پاس سے گزرے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: لڑکے! کیا دودھ موجود ہے؟ میں نے کہا: جی ہاں، لیکن مجھے اس مال پر امین بنایا گیا ہے (لہذا میں اپنے مالک کی اجازت کے بغیر نہیں دے سکتا)، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: کیا کوئی ایسی بکری ہے، جس کی بکرے سے جفتی نہ کرائی گئی ہو؟ پس میں اس قسم کی ایک بکری لے آیا، جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کے تھن کو چھوا تو اس میں دودھ اتر آیا، پس آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس کو ایک برتن میں دوہا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خود بھی پیا اور سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ کو بھی پلایا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تھن سے فرمایا: سکڑ جا۔ پس وہ سکڑ گیا۔ پھر میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس گیا اور کہا: اے اللہ کے رسول! مجھے اس دین میں کچھ تعلیم دیں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے میرے سر پہ ہاتھ پھیرا اور فرمایا: اللہ تعالی تجھ پر رحم کرے، تو تو پیارا سا تعلیمیافتہ لڑکا ہے۔ ایک روایت میں ہے: پھر سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ ، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس پیالہ نما پتھر لے کر آئے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس میں دودھ دوہا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے، سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ نے اور میں نے دودھ پیا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تھن سے فرمایا: سکڑ جا۔ پس وہ سکڑ گیا۔ اس کے بعد میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس گیا اور کہا: آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مجھے اس دین میں کچھ سکھا دیں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: تو تو سکھایا ہوا لڑکا ہے۔ پھر میں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دہن مبارک سے ستر سورتیں سیکھی تھیں، اس میں کسی کا مجھ سے کوئی جھگڑا نہیں تھا۔
Musnad Ahmad, Hadith(11322)