Blog
Books



۔ (۱۱۳۵۹)۔ عَنْ زُرَارَۃَ بْنِ أَوْفٰی، عَنْ سَعْدِ بْنِ ہِشَامٍ، أَنَّہُ أَتَی ابْنَ عَبَّاسٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ فَسَأَلَہُ عَنِ الْوِتْرِ، فَقَالَ: أَلَا أُنَبِّئُکَ بَأَعْلَمِ أَھْلِ الْأَرْضِ بِوِتْرِ رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ؟ قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: ائْتِ عَائِشَۃَ، فَسْأَلْھَا ثُمَّ ارْجِعْ إِلَیَّ، فَأَخْبِرْنِی بِرَدِّھَا عَلَیْکَ، قَالَ: فَأَتَیْتُ عَلٰی حَکِیْمِ بْنِ أَفْلَحَ فَاسْتَلْحَقْتُہُ إِلَیْہَا، فَقَالَ: مَا أَنَا بِقَارِبِہَا، إِنِّی نَہَیْتُہَا أَنْ تَقُوْلَ فِی ھَاتَیْنِ الشِّیْعَتَیْنِ شَیْئًا فَأَبَتْ فِیْہِمَا إِلَّا مُضِیًّا، فَأَقْسَمْتُ عَلَیْہِ فَجَائَ مَعِی، فَدَخَلْنَا عَلَیْہَا، فَقَالَتْ: حَکِیْمٌ، وَعَرَفَتْہُ، قَالَ: نَعَمْ أَوْ بَلٰی، قَالَتْ: مَنْ ھٰذَا مَعَکَ؟ قَالَ: سَعْدُ بْنُ ہِشَّامٍ، قَالَتْ: مَنْ ہِشَامٌ؟ قَالَ: ابْنُ عَامِرٍ، قَالَ: فَتَرَحْمَتْ عَلَیْہِ وَقَالَتْ: نِعْمَ الْمَرْئُ کَانَ عَامِرٌ، قُلْتُ: یَا أُمَّ الْمُؤْمِنِیْنَ! أَنْبِئِیْنِی عَنْ خُلُقِ رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ، قَالَتْ: أَلَسْتَ تَقْرَأُ الْقُرْآنَ؟ قُلْتُ: بَلٰی، قَالَتْ: فَإِنَّ خُلُقَ رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کَانَ الْقُرْآنَ، فَہَمَمْتُ أَنْ أَقُوْمَ فَبَدَا لِی قِیَامُ رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ، قُلْتُ: یَا أُمَّ الْمُؤْمِنِیْنَ! أَنْبِئِیْنِی عَنْ قِیَامِ رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ، قَالَتْ: أَلَسْتَ تَقْرَأُ ھٰذِہِ السُّورَۃَ {یَا أَیُّہَاالْمُزَّمِّلُ؟} قُلْتُ: بَلٰی، قَالَتْ: فَإِنَّ اللّٰہَ عَزَّوَجَلَّ افْتَرَضَ قِیَامَ اللَّیْلِ فِی أَوَّلِ ھٰذِہِ السُّورَۃِ، فَقَامَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَأَصْحَابُہُ حَوْلًا، حَتَّی انْتَفَخَتْ أَقْدَامُہُمْ، وَأَمْسَکَ اللّٰہُ عَزَّوَجَلَّ خَاتِمَتَہَا فِی السَّمَائِ اثْنَیْ عَشَرَ شَہْرًا، ثُمَّ أَنْزَلَ اللّٰہُ عَزَّوَجَلَّ التَّخْفِیْفَ فِی آخِرِ ھٰذِہِ السُّوْرَۃِ، فَصَارَ قِیْامُ رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم تَطَوُّعًا مِنْ بَعْدِ فَرِیْضَۃٍ، فَہَمَمْتُ أَنْ أَقُوْمَ ثُمَّ بَدَا لِی وِتْرُ رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قُلْتُ: یَا أُمَّ الْمُؤْمِنِیْنَ! أَنْبِئِیْنِی عَنْ وِتْرِ رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ، قَالَتْ: کُنَّا نُعِدُّ لَہُ سِوَاکَہُ وَطُہُوْرَہُ، فَیَبْعَثُہُ اللّٰہُ عَزَّوَجَلَّ لِمَا شَائَ أَنْ یَبْعَثَہُ مِنَ اللَّیْلِ فَیَتَسَوَّکُ، ثُمَّ یَتَوَضَّأُ، ثُمَّ یُصَلِّی ثَمَانِیَ رَکْعَاتٍ لَا یَجْلِسُ فِیْہِنَّ إِلَّا عِنْدَ الثَّامِنَۃِ، فَیَجْلِسُ وَیَذْکُرُ رَبَّہُ عَزَّوَجَلَّ وَیَدْعُو وَیَسْتَغْفِرُ، ثُمَّیَنْہَضُ وَلَا یُسَلِّمُ، ثُمَّ یُصَلِّی التَّاسِعَۃَ فَیَقْعُدُ فَیَحْمَدُ رَبَّہُ وَیَذْکُرُہُ وَیَدْعُو، ثُمَّ یُسَلَِّمُ تَسْلِیْمًایُسْمِعُنَا، ثُمَّ یُصَلِّی رَکْعَتَیْنِ وَھُوَ جَالِسٌ بَعْدَ مَا یُسَلِّمُ، فَتِلْکَ إِحْدٰی عَشْرَۃَ رَکْعَۃًیَابُنَیَّ، فَلَمَّا أَسَنَّ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَأَخَذَ اللَّحْمَ أَوْتَرَ بِسَبْعٍ، ثُمَّ صَلَّی رَکْعَتَیْنِ وَھُوَ جَالِسٌ بَعْدَ مَا یُسَلِّمُ، فَتِلْکَ تِسْعٌ یَا بُنَیَّ، وَکَانَ نَبِیُّ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم إِذَا صَلَّی صَلَاۃً أَحَبَّ أَنْ یُدَاوِمَ عَلَیْہَا، وَکَانَ إِذَا شَغَلَ عَنْ قِیَامِ اللَّیْلِ بِنَوْمٍ أَوْ وَجْعٍ أَوْ مَرَضٍ صَلَّی مِنَ النَّہَارِ اثْنَتَیْ عَشْرَۃَ رَکْعَۃً، وَلَا أَعْلَمُ نَبِیَّ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَرَأَ الْقُرْآنَ کُلَّہُ فِی لَیْلَۃٍ، وَلَا قَامَ لَیْلَۃً حَتّٰی أَصْبَحَ، وَلَا صَامَ شَہْرًا کَامِلًا غَیْرَ رَمَضَانَ۔ فَأَتَیْتُ ابْنَ عَبَّاسٍ فَحَدَّثْتُہُ بِحَدِیْثِہَا فَقَالَ: صَدَقَتْ، أَمَا لَوْ کُنْتُ أَدْخُلُ عَلَیْہَا لَأَتَیْتُہَا حَتّٰی تُشَافِہَنِی مُشَافَہَۃً۔ (مسند احمد: ۲۴۷۷۳)
زرارہ بن اوفی سعد بن ہشام سے روایت کرتے ہیں کہ وہ سیدنا عبداللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی خدمت میں گئے اور ان سے وتر کے متعلق سوالات کیے۔ انہوں نے جواب دیا:کیا میں تجھے یہ نہ بتلائوں کہ روئے زمین پر رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے وتروںکے متعلق سب سے زیادہ علم کسے ہے؟سعد نے کہا: جی بتایئے۔ عبداللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: تم ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کے پاس جا کر ان سے دریافت کرو۔ پھر واپس آکر مجھے بھی ان کے جواب سے مطلع کرنا۔ ابن ہشام کہتے ہیں: ان کی بات سن کر میں حکیم بن افلح کے ہاں گیا اور ان کو بھی اپنے ساتھ ام المؤمنین کے ہاں لے جانا چاہا تو انہوں نے کہا کہ میں ان کے ہاں نہیں جائوں گا۔ میں نے انہیں ان (سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ اور سیدنا معاویہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے مابین ہونے والی جنگ جمل کے) دوگروہوں کے متعلق کسی قسم کی بات کرنے سے منع کیا تھا لیکن انہوںنے میری بات نہیں مانی، بلکہ وہ خود سیاست میں نکل آئیں۔ ابن ہشام کہتے ہیں: لیکن جب میں نے ان کو قسم دی تو وہ میرے ساتھ چلے آئے، ہم ان کے ہاں گئے۔ انہوں نے حکیم کو پہچان کر پوچھا: حکیم ہو؟ اس نے کہا: جی ہاں۔ انہوںنے پوچھا: تمہارے ساتھ کون ہے؟ حکیم نے جواب دیا: یہ سعد بن ہشام ہے۔ انہوں نے پوچھا: ہشام کون؟ حکیم نے بتایا کہ عامر کا بیٹاتو انہوںنے عامر کے حق میں رحمت کی دعا کی اور کہا: عامر بہت اچھا آدمی تھا۔ میں نے (حکیم نے) عرض کی:ام المؤمنین! آپ مجھے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے اخلاق سے آگاہ فرمائیں۔ انہوںنے کہا: کیا تم قرآن نہیں پڑھتے؟ میں نے عرض کی: جی ہاں۔ کہنے لگیں: قرآن ہی تو رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا اخلاق ہے۔ یہ سن کر میں نے اٹھنے کا ارادہ کیا ہی تھا کہ مجھے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے قیام اللیل کی بات یاد آگئی۔ میں نے عرض کی: اے ام المؤمنین! آپ مجھے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے قیام اللیل کے متعلق آگاہ فرمائیں۔ انہوں نے کہا: کیا تم سورۂ مزمل نہیں پڑھتے؟ میں نے عرض کی: جی ہاں پڑھتا ہوں۔ کہنے لگیں:اللہ تعالیٰ نے اس سورت کے شروع والے حصے میں قیام اللیل فرض کیا تھا،۔ اس کے بعد رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے اصحاب ایک سال تک اس قدر طویل قیام کرتے رہے کہ ان کے پائوں سوج جاتے تھے، پھر اللہ تعالیٰ نے اس سورت کے آخری حصہ کو بارہ ماہ تک آسمانوں پر رو کے رکھا۔پھر اللہ تعالیٰ نے اس سورت کے آخر میں اس حکم کی تخفیف نازل فرمائی۔ قیام اللیل جو پہلے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم پر فرض تھا، اس کے بعد وہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے لیے نفل قرار پایا۔ اس کے بعد میں نے پھر اٹھنے کا ارادہ کیا تو مجھے یاد آیا کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے وتر کے بارے میں تو پوچھ لوں۔ میں نے عرض کی: ام المؤمنین! مجھے رسو ل اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کینماز وتر کے متعلق بھی آگاہ فرما دیں۔ انہوں نے کہا: ہم آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے لیے مسواک اور وضو کا پانی تیار کر کے رکھ دیتے، اللہ تعالیٰ کو جب منظور ہوتا وہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو رات کے کسی حصہ میں بیدار کر دیتا۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مسواک کرتے، پھر وضو کرتے، پھر مسلسل آٹھ رکعات یوں پڑھتے کہ آٹھویں میں (تشہد کے لیے) بیٹھ جاتے اور اللہ تعالیٰ کا ذکر کرتے دعائیں اور استغفار کرتے،پھر سلام نہ پھیرتے اور کھڑے ہو کر نویں رکعت ادا کرتے۔ پھر بیٹھ کر (آخری تشہد میں) اللہ کی حمد اور اس کا ذکر کرتے اور دعائیں کرتے۔ پھر اس قدر مناسب آواز سے سلام پھیرتے کہ ہمیں سلام کی آواز سنائی دے جاتی۔ پھر اس کے بعد آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بیٹھے بیٹھے دو رکعتیں ادا کرتے۔ بیٹے! اس طرح کل گیارہ رکعات ہوتیں۔ لیکن جب آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا وزن بڑھ گیا (اور عمر زیادہ ہونے لگی) تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سات وتر ادا کرتے اور سلام کے بعد بیٹھے بیٹھے دو رکعات ادا فرماتے۔ بیٹے! یہ اس طرح نو رکعات ہو گئیں۔ اور نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا معمول تھا کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم جب کبھی کسی وقت میں نماز ادا فرماتے تو اس وقت میں نماز ادا کرنے پر دوام فرماتے۔ اور کبھی نیندیا خرابی طبع یا بیماری کی وجہ سے قیام اللیل نہ کر سکتے تو دن کے وقت بارہ رکعات ادا فرماتے۔ میرے علم میں ایسا کوئی واقعہ نہیں کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ایک رات میں سارا قرآن پڑھا ہو یا صبح تک قیام کیا ہو۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ماہ رمضان کے علاوہ کبھی بھی پورا مہینہ مسلسل روزے نہیں رکھے۔ میں نے عبداللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی خدمت میں جا کر ام المؤمنین ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کی حدیث ان کو سنائی توکہنے لگے: انہوںنے بالکل درست بیان کیاہے۔ اگر میں ان کے ہاں جاتا ہوتا تو میں خودان کی خدمت میں حاضر ہوتا تاکہ وہ براہ راست مجھے بیان فرمائیں۔
Musnad Ahmad, Hadith(11359)
Background
Arabic

Urdu

English