۔ (۱۱۳۷۳)۔ عَنِ ابْنِ شِہَابٍ: أَنَّ عَلِیَّ بْنَ الْحُسَیْنِ حَدَّثَہُ، أَنَّہُمْ حِیْنَ قَدِمُوا الْمَدِیْنَۃَ مِنْ عِنْدِ یَزِیْدَ بْنِ مُعَاوِیَۃَ مَقْتَلَ حُسَیْنِ بْنِ عَلِیٍّ لَقِیَہُ الْمِسْوَرُ بْنُ مَخْرَمَۃَ فَقَالَ: ھَلْ لَکَ إِلَّی مِنْ حَاجَۃٍ تَأْمُرُنِی بِہَا؟ قَالَ: فَقُلْتُ لَہُ: لَا، قَالَ: ھَلْ أَنْتَ مُعْطِیَّ سَیْفَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ؟ فَأِنِّیْ أَخَافُ أَنْ یَغْلِبَکَ الْقَوْمُ عَلَیْہِ، وَأَیْمُ اللّٰہِ لَئِنْ أَعْطَیْتَنِیْہِ لَا یُخْلَصُ اِلَیْہِ أَبَدًا حَتّٰی تَبْلُغَ نَفْسِی، إِنَّ عَلِیَّ بْنَ أَبِی طَالِبٍ خَطَبَ ابْنَۃَ أَبِی جَہْلٍ عَلٰی فَاطِمَۃَ، فَسَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وَھُوَ یَخْطُبُ النَّاسَ فِی ذٰلِکَ عَلٰی مِنْبَرِہِ ھٰذَا وَأَنَا یَوْمَئِذٍ مُحْتَلِمٌ فَقَالَ: ((اِنَّ فَاطِمَۃَ بَضْعَۃٌ مِنِّی وَأَنَا أَتَخَوَّفُ أَنْ تُفْتَنَ فِی دِیْنِہَا۔)) قَالَ: ثُمَّ ذَکَرَ صِہْرًا لَہُ مِنْ بَنِی عَبْدِ شَمْسٍ، فَأَثْنٰی عَلَیْہِ فِی مُصَاھَرَتِہِ اِیََّاہُ فَأَحْسَنَ، قَالَ: ((حَدَّثَنِی فَصَدَقَنِی وَوَعَدَنِی فَوَفٰی لِی، وَاِنِّی لَسْتُ أُحَرِّمُ حَلَالاً وَلَا أُحِلُّ حَرَامًا، وَلٰکِنْ وَاللّٰہِ لَا تَجْتَمِعُ ابْنَۃُ رَسُوْلِ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وَابْنَۃُ عَدُوِّ اللّٰہِ مَکَانًا وَاحِدًا أَبَدًا۔)) (مسند احمد: ۱۹۱۲۰)
علی بن حسین نے بیان کیا کہ جب یہ لوگ شہادت حسین رضی اللہ عنہ کے بعد یزید بن معاویہ کے ہاں سے مدینہ منورہ آئے تو سیدنا مسور بن مخرمہ نے آکر ان سے ملاقات کی اور کہا: میرے لائق کوئی خدمت ہو تو بتائیں۔ میں نے ان سے کہا:جی کوئی نہیں ہے۔ مسور نے کہا: کیا آپ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم والی تلوار عنایت کر سکتے ہیں؟مجھے اندیشہ ہے کہ اس تلوار کے بارے میں لوگ آپ پر حاوی ہوجائیں گے۔ اللہ کی قسم! اگر آپ وہ تلوار مجھے عنایت فرمائیں گے تو جب تک میں زندہ رہوں گا، اس وقت تک کسی کو نہیں پہنچنے دوں گا، جبکہ تک وہ مجھے ختم نہیں کر دے گا، بے شک سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کی زندگی میں ابو جہل کی بیٹی کو نکاح کا پیغام بھیجا تھا۔ اس موقع پر میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنے منبر پر کھڑے ہو کر لوگوں کو خطبہ دیتے ہوئے سناجبکہ میں ان دنوں بالغ ہو چکا تھا،آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: فاطمہ میرے جگر کا ٹکڑا ہے، مجھے اندیشہ ہے کہ اسے دین کے بارے میں مشکلات میں ڈال دیا جائے گا۔ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بنو عبد شمس سے تعلق رکھنے والے اپنے داماد (ابو العاص رضی اللہ عنہ )کا ذکر کیا اورآپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کی خوب تعریف کی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اس نے میرے ساتھ جو عہد وپیماں کیا اسے پورا کیا، ہاں ہاں میں کسیحلال کو حرام یا حرام کو حلال نہیں کرتا، لیکن اللہ کی قسم! رسول اللہ کی دختر اور اللہ کے دشمن کی بیٹی ایک جگہ (یعنی ایک آدمی کی زوجیت میں) کبھی اکٹھی نہیں ہو سکتیں۔
Musnad Ahmad, Hadith(11373)