Blog
Books



۔ (۱۱۴۲۷)۔ عَنْ عُرْوَۃَ عَنْ عَائِشَۃَ قَالَتْ: اجْتَمَعْنَ أَزْوَاجُ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَأَرْسَلْنَ فَاطِمَۃَ إِلَی النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقُلْنَ لَہَا: قُولِی لَہُ: إِنَّ نِسَاء َکَ یَنْشُدْنَکَ الْعَدْلَ فِی ابْنَۃِ أَبِی قُحَافَۃَ، قَالَتْ: فَدَخَلَتْ عَلَی النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَہُوَ مَعَ عَائِشَۃَ فِی مِرْطِہَا، فَقَالَتْ لَہُ: إِنَّ نِسَاء َکَ أَرْسَلْنَنِی إِلَیْکَ وَہُنَّ یَنْشُدْنَکَ الْعَدْلَ فِی ابْنَۃِ أَبِی قُحَافَۃَ، فَقَالَ لَہَا النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((أَتُحِبِّینِی۔)) قَالَتْ: نَعَمْ، قَالَ: ((فَأَحِبِّیہَا۔)) فَرَجَعَتْ إِلَیْہِنَّ فَأَخْبَرَتْہُنَّ مَا قَالَ لَہَا، فَقُلْنَ إِنَّکِ لَمْ تَصْنَعِی شَیْئًا فَارْجِعِی إِلَیْہِ، فَقَالَتْ: وَاللّٰہِ لَا أَرْجِعُ إِلَیْہِ فِیہَا أَبَدًا، قَالَ الزُّہْرِیُّ: وَکَانَتْ ابْنَۃَ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم حَقًّا، فَأَرْسَلْنَ زَیْنَبَ بِنْتَ جَحْشٍ قَالَتْ عَائِشَۃُ: ہِیَ الَّتِی کَانَتْ تُسَامِینِی مِنْ أَزْوَاجِ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَتْ: إِنَّ أَزْوَاجَکَ أَرْسَلْنَنِی إِلَیْکَ وَہُنَّ یَنْشُدْنَکَ الْعَدْلَ فِی ابْنَۃِ أَبِی قُحَافَۃَ، قَالَتْ: ثُمَّ أَقْبَلَتْ عَلَیَّ تَشْتُمُنِی، فَجَعَلْتُ أُرَاقِبُ النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَأَنْظُرُ إِلٰی طَرْفِہِ ہَلْ یَأْذَنُ لِی فِی أَنْ أَنْتَصِرَ مِنْہَا، فَلَمْ یَتَکَلَّمْ، قَالَتْ: فَشَتَمَتْنِی حَتّٰی ظَنَنْتُ أَنَّہُ لَا یَکْرَہُ أَنْ أَنْتَصِرَ مِنْہَا، فَاسْتَقْبَلْتُہَا فَلَمْ أَلْبَثْ أَنْ أَفْحَمْتُہَا، قَالَتْ: فَقَالَ لَہَا النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((إِنَّہَا ابْنَۃُ أَبِی بَکْرٍ۔)) قَالَتْ عَائِشَۃُ: وَلَمْ أَرَ امْرَأَۃً خَیْرًا مِنْہَا، وَأَکْثَرَ صَدَقَۃً، وَأَوْصَلَ لِلرَّحِمِ، وَأَبْذَلَ لِنَفْسِہَا فِیکُلِّ شَیْئٍیُتَقَرَّبُ بِہِ إِلَی اللّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ مِنْ زَیْنَبَ، مَا عَدَا سَوْرَۃً مِنْ غَرْبٍ حَدٍّ کَانَ فِیہَا تُوشِکُ مِنْہَا الْفِیئَۃُ۔ (مسند احمد: ۲۵۶۸۹)
سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے مروی ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی ازواج نے اکٹھے ہو کر مشورہ کیا اور سیدہ فاطمہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کو نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں بھیجا اور ان سے کہا کہ آپ جا کر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے کہیں کہ آپ کی ازواج ابو قحافہ کی بیٹی کے بارے میں آپ سے عدل کا مطالبہ کرتی ہیں۔ سیدہ فاطمہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا نے بیان کیا کہ میں نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ہاں گئی تو آپ سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کی چادر میں ان کے ساتھ تھے۔ انہوںنے جا کر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے کہا کہ آپ کی ازواج نے مجھے آپ کی خدمت میں بھیجا ہے، وہ ابو قحافہ کی بیٹی کے بارے میں آپ سے عدل کا مطالبہ کرتی ہیں۔ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان سے فرمایا: کیاتمہیں مجھ سے محبت ہے؟ زہری نے کہا: سیدہ فاطمہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا نے عرض کیا: جی ہاں۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: پھر تم بھی اس عائشہ سے محبت رکھو۔ دوسری روایت میں ہے: آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: بیٹی! جو کچھ مجھے پسند ہے کیا تمہیں پسند نہیں ہے؟ سیدہفاطمہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا نے عرض کیا: کیوں نہیں،آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تو پھر تم بھی ان سے یعنی عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے محبت رکھو۔ سیدہ فاطمہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا آپ کی بات سن کر واپس آگئیں اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے جواب سے انہیں مطلع کیا، ان سب نے کہا: تم نے تو کچھ بھی نہیں کیا؟ تم دوبارہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی طرف جائو، لیکن سیدہ فاطمہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا نے کہا: اللہ کی قسم! اس بارے میں میں آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس بالکل نہیں جائوں گی۔ سیدہ فاطمہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا واقعی رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی بیٹی تھیں۔ اس کے بعد ازواج نے ام المؤمنین سیدہ زینب بنت جحش ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کو (تیار کرکے) بھیجا۔ ازواج مطہرات میں صرف وہی سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کے مد مقابل تھیں۔ انہوں نے جا کر کہا: آپ کی بیویوں نے مجھے آپ کی خدمت میں بھیجا ہے، وہ آپ سے ابو قحافہ کی دختر کے بارے میں عدل و مساوات کا مطالبہ کرتی ہیں۔ سیدہ عائشہ صدیقہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کہتی ہیں: وہ یہ کہتے ہی میری طرف متوجہ ہوئیں اور مجھے براہ راست برا بھلا کہنے لگیں۔ میں نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا انتظار کرنے اور ان کی آنکھ کی طرف دیکھنے لگی کہ کیا آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مجھے ان سے بدلہ لینے کی اجازت دیتے ہیں؟ لیکن آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے کچھ بھی نہ فرمایا، انہوں نے مجھے اس قدر کوسا کہ مجھے یقین ہو گیا کہ اب اگر میں ان سے بدلہ لوں تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو گراں نہ گزرے گا۔ چنانچہ میں نے ان کا رخ کیا اور جلد ہی ان پر غالب آگئی،یہ صورت حال دیکھ کر نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان سے فرمایا: آخر یہ ابو بکر کی بیٹی ہے۔ دوسری روایت کے الفاظ یوں ہیں: میری باتیں سن کر نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے تبسم کیا اور فرمایا: یہ تو ابو بکر کی بیٹی ہے۔ سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کہتی ہیں کہ ازواج مطہرات میں سے میں نے کسی کو ام المؤمنین سیدہ زینب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے بڑھ کر بہتر زیادہ صدقہ کرنے والی، زیادہ صلہ رحمی کرنے والی اور اللہ کا قرب حاصل کرنے کے لیے سعی کرنے والی ان سے بڑھ کر کسی کو نہیں پایا، ان میں صرف ایک خامی تھی کہ انہیں جوش اور غصہ بہت جلد آجاتا تھا، لیکن پھر جلد ہی اس کو ختم کر دیتی تھیں۔
Musnad Ahmad, Hadith(11427)
Background
Arabic

Urdu

English