Blog
Books



۔ (۱۱۴۳۳)۔ (وَمِنْ طَرِیْقٍ ثَانٍ) عَنْ عَائِشَۃَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا بِنَحْوِہِ إِلَّا أَنَّہُ (یَعْنِی ابْنَ شِہَابٍ) قَالَ: آذَنَ لَیْلَۃً بِالرَّحِیلِ فَقُمْتُ حِینَ آذَنُوا بِالرَّحِیلِ، وَقَالَ مِنْ جَزْعِ ظَفَارٍ وَقَالَ: یُہَبَّلْنَ، وَقَالَ: فَیَمَّمْتُ مَنْزِلِی، وَقَالَ: قَالَ عُرْوَۃُ: أُخْبِرْتُ أَنَّہُ کَانَ یُشَاعُ وَیُحَدَّثُ بِہِ عِنْدَہُ فَیُقِرُّہُ وَیَسْتَمِعُہُ وَیَسْتَوْشِیہِ، وَقَالَ عُرْوَۃُ أَیْضًا: لَمْ یُسَمَّ مِنْ أَہْلِ الْإِفْکِ إِلَّا حَسَّانُ بْنُ ثَابِتٍ وَمِسْطَحُ بْنُ أُثَاثَۃَ وَحَمْنَۃُ بِنْتُ جَحْشٍ فِی نَاسٍ آخَرِینَ لَا عِلْمَ لِی بِہِمْ إِلَّا أَنَّہُمْ عُصْبَۃٌ کَمَا قَالَ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ، وَإِنَّ کِبْرَ ذٰلِکَ کَانَ یُقَالُ عِنْدَ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ أُبَیِّ ابْنِ سَلُولَ، قَالَ عُرْوَۃُ: وَکَانَتْ عَائِشَۃُ تَکْرَہُ أَنْ یُسَبَّ عِنْدَہَا حَسَّانُ، وَتَقُولُ: إِنَّہُ الَّذِی قَالَ: فَإِنَّ أَبِی وَوَالِدَہُ وَعِرْضِی لِعِرْضِ مُحَمَّدٍ مِنْکُمْ وِقَائُ، وَقَالَتْ: وَأَمْرُنَا أَمْرُ الْعَرَبِ الْأُوَلِ فِی التَّنَزُّہِ، وَقَالَ لَہَا ضَرَائِرُ: وَقَالَ بِالَّذِییَعْلَمُ مِنْ بَرَائَۃِ أَہْلِہِ، وَقَالَ: فَتَأْتِی الدَّاجِنُ فَتَأْکُلُہُ، وَقَالَ: وَإِنْ کَانَ مِنْ إِخْوَانِنَا الْخَزْرَجِ، وَقَالَ: فَقَامَ رَجُلٌ مِنَ الْخَزْرَجِ وَکَانَتْ أُمُّ حَسَّانَ بِنْتَ عَمِّہِ مِنْ فَخِذِہِ وَہُوَ سَعْدُ بْنُ عُبَادَۃَ وَہُوَ سَیِّدُ الْخَزْرَجِ، قَالَتْ: وَکَانَ قَبْلَ ذَلِکَ رَجُلًا صَالِحًا وَلٰکِنِ احْتَمَلَتْہُ الْحَمِیَّۃُ، وَقَالَ: قَلَصَ دَمْعِی، وَقَالَ: وَطَفِقَتْ أُخْتُہَا حَمْنَۃُ تُحَارِبُ لَہَا، وَقَالَ عُرْوَۃُ: قَالَتْ عَائِشَۃُ: وَاللّٰہِ إِنَّ الرَّجُلَ الَّذِی قِیلَ لَہُ مَا قِیلَ لَیَقُولُ: سُبْحَانَ اللّٰہِ! فَوَالَّذِی نَفْسِی بِیَدِہِ مَا کَشَفْتُ عَنْ کَنَفِ أُنْثٰی قَطُّ، قَالَتْ: ثُمَّ قُتِلَ بَعْدَ ذٰلِکَ فِی سَبِیلِ اللّٰہِ شَہِیدًا۔ (مسند احمد: ۲۶۱۴۲)
۔(دوسری زید) ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے گزشتہ حدیث کی مانند ہی مروی ہے۔ البتہ ابن شہاب زہری نے یوں بیان کیا ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ایک رات روانگی کا حکم دیا تو اس اعلان کو سن کر میں اٹھی۔ اسی طرح زہری نے ہار کے متعلق بیان کیا کہ وہ مقام ظفار کے موتیوں سے بنا ہوا تھا۔ نیز اس نے لفظ یُہَبَّلْنَ کہا ہے، یعنی عورتیں زیادہ بھاری جسامت والی نہیں ہوتی تھیں۔ اسی طرح اس نے فَیَمَّمْتُ مَنْزِلِی (میں نے اپنے مقام کا قصد کیا)کہا ہے، نیز امام زہری نے بیان کیا کہ عروہ نے کہا مجھے بتایا گیا کہ یہ باتیں پھیلائی جارہی تھیں اور اس کے پاس یعنی عبداللہ بن ابی کے سامنے یہ باتیں کی جاتیں وہ ان کی تصدیق کرتا، غور سے سنتا اور چغلی کھاتا یعنی دوسروں سے جاجاکر بھی کہتا۔ عروہ نے یہ بھی کہا ہے کہ ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا پر تہمت لگانے والوں میں حسان بن ثابت ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ مسطح بن اثاثہ اور حمنہ بنت جحش اور کچھ دوسرے لوگوں کے نام ہیں جن کے ناموں سے میں واقف نہیں۔ صرف اتنا جانتا ہوں کہ وہ ایک جماعت تھی۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کو عصبہ یعنی ایک جماعت کہاہے۔ اس بات میں سب سے زیادہ دلچسپی عبداللہ بن ابی سلول نے لی اور اس بات کو خوب ہوا دی۔ عروہ نے یہ بھی بیان کیا کہ ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا اس بات کو پسند نہ کرتی تھی کہ ان کے پاس حسان بن ثابت ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے متعلق کوئی بات کی جائے۔ وہ فرمایا کرتی تھیں کہ حسان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے ہی تو رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے عقیدت و محبت کا اظہار کرتے ہوئے یہ کہا ہے: فَإِنَّ أَبِی وَوَالِدَہُ وَعِرْضِی لِعِرْضِ مُحَمَّدٍ مِنْکُمْ وِقَائُ (تمہارے تیروں اور نشتر سے محمد ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی جان اور عزت کو بچانے کے لیے میرا باپ اور اس کا باپ اور میری عزت سب کچھ ان پر فدا ہے۔) نیز سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا نے کہا ہے کہ ان دنوں قضائے حاجت کے بارے میں ہماری معاشرت اور یعنی عرب کی سی تھی۔ اسی طرح زہری نے اس سند میں لھا ضرائر کہا(جبکہ پچھلی روایت میں ولھا ضرائر تھا)۔ اسی طرح اسامہ بن زید ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے الفاظ یوں بیان کیے ہیں: اس ذات کی قسم جو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے اہل کی براء ت کو جانتی ہے ،بریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے الفاط یوں ہیں کہ بکری آکر آٹا کھا جاتی ہے، گزشتہ طریق میں بھییہ الفاظ اسی طرح ہیں ۔ اس طریق میں سعد بن معاذ انصاری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے الفاظ یوں ہیں۔ اس طریق میں سعد بن معاذ انصاری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے الفاظ یوں ہیں: اگرچہ وہ ہمارے بھائیوں خزرج میں سے ہے۔ جبکہ گزشتہ طریق میں من الخزرج ہے۔مفہوم ایک ہی ہے۔ اس طریق میں فقام رجل من الخزرج ہے۔ جبکہ گزشتہ طریق میں فقام سعد بن عبادۃ ہے۔دونوں سے مراد ایک ہی ہے۔اس طریق میں حسان کی والدہ کے متعلق یہ بیان ہے کہ وکانت ام حسان بنت عمہ من فخذہ کہ حسان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی والدہ اس کی چچازاد اور اسی کے خاندان میں سے تھی۔ یہ جملہ گزشتہ طریق میں نہیں ہے، اس طریق میں ہے: {وھو سعد بن عبادۃ وھو سید الخزرج قالت وکان قبل ذلک رجلا صالحًا ولکن احتملۃ الحمیۃ} جبکہ گزشتہ طریق کے الفاظ یوں ہیں: {فقام سعد بن عبادۃ وکان رجلاً صالحًا ولکن اجتھلتہ الحمیتہ} نیز اس طریق میں زہری نے: {قلص دمعی} کہا ہے جبکہ گزشتہ طریق میں بھی اسی طرح ہے۔زہری نے اس طریق میں کہا ہے : {وطفقت اختھا حمنۃ تجارب لھا} گزشتہ طریق میں ہے: {وطفقت اختھا حمنۃ بنت جحش تجارب لھا}ہے عروہ نے بیان کیا کہ سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا نے کہا کہ اللہ کی قسم! وہ آدمی جس کے متعلق کہا گیا جو کچھ بھی کہا گیا، اس نے کہا اس ذات کی قسم! جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، میں نے کبھی بھی کسی عورت کے پہلو سے کپڑا نہیں اٹھایا۔ سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا نے بیان کیا کہ وہ یعنی صفوان بن معطل ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ اس واقعہ کے بعد اللہ کی راہ میں شہادت سے سرفزار ہوئے۔
Musnad Ahmad, Hadith(11433)
Background
Arabic

Urdu

English