۔ (۱۱۴۳۶)۔ عَنْ عَائِشَۃَ زَوْجِ النَّبِیِّ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قَالَتْ: أَقْبَلْنَا مَعَ رَسُولِ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فِی بَعْضِ أَسْفَارِہِ حَتّٰی إِذَا کُنَّا بِتُرْبَانَ بَلَدٍ بَیْنَہُ وَبَیْنَ الْمَدِینَۃِ بَرِیدٌ وَأَمْیَالٌ، وَہُوَ بَلَدٌ لَا مَائَ بِہِ وَذٰلِکَ مِنَ السَّحَرِ انْسَلَّتْ قِلَادَۃٌ لِی مِنْ عُنُقِی فَوَقَعَتْ، فَحُبِسَ رَسُولُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لِالْتِمَاسِہَا حَتّٰی طَلَعَ الْفَجْرُ وَلَیْسَ مَعَ الْقَوْمِ مَائٌ، قَالَتْ: فَلَقِیتُ مِنْ أَبِی مَا اللّٰہُ بِہِ عَلِیمٌ مِنْ التَّعْنِیفِ وَالتَّأْفِیفِ، وَقَالَ فِی کُلِّ سَفَرٍ: لِلْمُسْلِمِینَ مِنْکِ عَنَائٌ وَبَلَائٌ، قَالَتْ: فَأَنْزَلَ اللّٰہُ الرُّخْصَۃَ بِالتَّیَمُّمِ، قَالَتْ:
فَتَیَمَّمَ الْقَوْمُ وَصَلَّوْا، قَالَتْ: یَقُولُ أَبِی حِینَ جَائَ مِنَ اللّٰہِ مَا جَائَ مِنَ الرُّخْصَۃِ لِلْمُسْلِمِینَ: وَاللّٰہِ! مَا عَلِمْتُ یَا بُنَیَّۃُ إِنَّکِ لَمُبَارَکَۃٌ مَاذَا جَعَلَ اللّٰہُ لِلْمُسْلِمِینَ فِی حَبْسِکِ إِیَّاہُمْ مِنَ الْبَرَکَۃِ وَالْیُسْرِ۔ (مسند احمد: ۲۶۸۷۲)
زوجۂ نبی ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کا بیان ہے کہ ہم ایک سفر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہمراہ واپس آرہے تھے۔ جب ہم مدینہ منورہ سے چند میل کے فاصلے پر سحری کے وقت ایک ایسی جگہ پہنچے جہاں پانی کا نام و نشان تک نہ تھا، میری گردن سے ہار اتر کر گر گیا۔ اس کی تلاش میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو رکنا پڑا یہاں تک کہ فجر طلوع ہوگئی، کسی کے پاس پانی نہ تھا، اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ اس موقعہ پر مجھے اپنے والد کی طرف سے کس قدر ڈانٹ پڑی۔ انہوںنے یہ بھی کہا کہ ہر سفر میں تمہاری وجہ سے مسلمانوں کو مشکل اور تکلیف کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ام المؤمنین رضی اللہ عنہا کا بیان ہے کہ اس موقع پر اللہ نے تیمم کی رخصت کا حکم نازل فرما دیا۔ اور لوگوں نے تیمم کرکے نماز ادا کی، جب اللہ تعالیٰ کی طرف سے مسلمانوں کے لیے رخصت کا یہ حکم آیا تو میرے ابا جان نے کہا: بیٹی! اللہ کی قسم! میں نہیں جانتا تھا کہ تم اس قدر با برکت ہو۔ تمہارے ہار کی تلاش میں مسلمانوں کو یہاں روکے جانے کے نتیجہ میں ان کے لیے اللہ نے کیا برکت اور آسانی رکھ دی ہے۔
Musnad Ahmad, Hadith(11436)