۔ (۱۱۴۴۴)۔ عَنْ ذَکْوَانَ مَوْلٰی عَائِشَۃَ أَنَّہُ اسْتَأْذَنَ لِابْنِ عَبَّاسٍ عَلٰی عَائِشَۃَ وَہِیَ تَمُوتُ وَعِنْدَہَا ابْنُ أَخِیہَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ، فَقَالَ: ہٰذَا ابْنُ عَبَّاسٍ یَسْتَأْذِنُ عَلَیْکِ وَہُوَ مِنْ خَیْرِ بَنِیکِ، فَقَالَتْ: دَعْنِی مِنِ ابْنِ عَبَّاسٍ وَمِنْ تَزْکِیَتِہِ، (وَفِیْ لَفْظٍ اِنِّیْ اَخَافُ اَنْ یُزَکِّیَنِیْ) فَقَالَ لَہَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ: إِنَّہُ قَارِئٌ لِکِتَابِ اللّٰہِ، فَقِیہٌ فِی دِینِ اللّٰہِ فَأْذَنِی لَہُ فَلْیُسَلِّمْ عَلَیْکِ وَلْیُوَدِّعْکِ، قَالَتْ: فَأْذَنْ لَہُ إِنْ شِئْتَ، قَالَ: فَأَذِنَ لَہُ فَدَخَلَ ابْنُ عَبَّاسٍ ثُمَّ سَلَّمَ وَجَلَسَ وَقَالَ: أَبْشِرِییَا أُمَّ الْمُؤْمِنِینَ! فَوَاللّٰہِ مَا بَیْنَکِ وَبَیْنَ أَنْ یَذْہَبَ عَنْکِ کُلُّ أَذًی وَنَصَبٍ (أَوْ قَالَ: وَصَبٍ) وَتَلْقَیْ
الْأَحِبَّۃَ مُحَمَّدًا وَحِزْبَہُ (أَوْ قَالَ أَصْحَابَہُ) إِلَّا أَنْ تُفَارِقَ رُوحُکِ جَسَدَکِ، فَقَالَتْ: وَأَیْضًا؟ فَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: کُنْتِ أَحَبَّ أَزْوَاجِ رَسُولِ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم إِلَیْہِ وَلَمْ یَکُنْیُحِبُّ إِلَّا طَیِّبًا، وَأَنْزَلَ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ بَرَائَ تَکِ مِنْ فَوْقِ سَبْعِ سَمٰوَاتٍ فَلَیْسَ فِی الْأَرْضِ مَسْجِدٌ إِلَّا وَہُوَ یُتْلٰی فِیہِ آنَائَ اللَّیْلِ وَآنَائَ النَّہَارِ، وَسَقَطَتْ قِلَادَتُکِ بِالْأَبْوَائِ فَاحْتَبَسَ النَّبِیُّ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فِی الْمَنْزِلِ وَالنَّاسُ مَعَہُ فِی ابْتِغَائِہَا (أَوْ قَالَ: فِی طَلَبِہَا) حَتّٰی أَصْبَحَ الْقَوْمُ عَلٰی غَیْرِ مَائٍ فَأَنْزَلَ اللّٰہُ عَزَّوَجَلَّ: {فَتَیَمَّمُوا صَعِیدًا طَیِّبًا} الْآیَۃَ، فَکَانَ فِی ذٰلِکِ رُخْصَۃٌ لِلنَّاسِ عَامَّۃً فِی سَبَبِکِ، فَوَاللّٰہِ إِنَّکِ لَمُبَارَکَۃٌ، فَقَالَتْ: دَعْنِییَا ابْنَ عَبَّاسٍ مِنْ ہٰذَا، فَوَاللّٰہِ لَوَدِدْتُ أَنِّی کُنْتُ نَسْیًا مَنْسِیًّا۔ (مسند احمد: ۳۲۶۲)
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے غلام ذکوا ن سے روایت ہے کہ ا م المؤمنین رضی اللہ عنہا فوت ہونے کے قریب تھیں، ان کے پاس ان کا برادر زادہ عبداللہ بن عبدالرحمن بیٹھا ہوا تھا کہ ذکوان نے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ کے اندر آنے کی اجازت طلب کرتے ہوئے کہا کہ آپ کے بہترین بیٹے ابن عباس آنے کی اجازت چاہتے ہیں۔ ام المؤمنین رضی اللہ عنہ نے کہا: مجھے ابن عباس اور ان کی تعریف و توصیف سے محفوظ ہیرکھو۔دوسری روایت کے لفظ یوں ہیں: مجھے اندیشہ ہے کہ وہ آکر میری مدح و توصیف کرنے لگیں گے۔ لیکن عبداللہ بن عبدالرحمن نے ان سے کہا: وہ اللہ کی کتاب کے قاری ہیں، اللہ کے دین کے بہت بڑے فقیہیعنی عالم ہیں، آپ انہیں اندر آنے کی اجازت دے دیں تاکہ وہ آپ کو سلام کہہ لیں اور آپ کو دنیا سے جاتے ہوئے الوداع کر لیں۔ سو ام المؤمنین رضی اللہ عنہا نے کہا: اگر تم چاہتے ہو تو اجازت دے دو۔عبداللہ نے ان کو آنے کی اجازت دے دی۔ ابن عباس رضی اللہ عنہ نے آکر سلام کہا اور بیٹھ گئے اور پھر کہا: ام المؤمنین ! آپ کو مبارک ہو، اللہ کی قسم! اب آپ کے اور ہر قسم کی تکلیف و مصیبت کے درمیان اور محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ان کی جماعت کے ساتھ ملاقات کے درمیان صرف آپ کی روح آپ کے جسد سے نکلنے کی دیر ہے۔ سیدہ نے کہا: جی ہاں ٹھیک ہے ا ور کیا؟ ابن عباس رضی اللہ عنہ نے کہا: نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنی تمام ازواج میں سے سب سے زیادہ محبت آپ سے تھی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اچھی چیز کو ہی پسند کیا کرتے تھے اور اللہ تعالیٰ نے سات آسمانوں کے اوپر سے آپ کی برأت کا حکم نازل کیا۔ دوسری روایت میں یہ اضافہ ہے کہ اس حکم کو جبریل علیہ السلام لے کر آئے تھے۔ روئے زمین کی ہر مسجد میں دن رات ان آیات برأت کی تلاوت کی جاتی ہے اور ابواء کے مقام پر آپ کا ہار گر گیا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور صحابۂ کرام اس کی تلاش میں وہاں رکے رہے، یہاں تک کہ صبح ہوگئی اور لوگوں کے پاس وضوء کے لیے پانی موجود نہ تھا۔ تو اللہ تعالیٰ نے: {فَتَیَمَّمُوا صَعِیدًا طَیِّبًا…} (سورۂ مائدہ: ۶) کا حکم نازل کر دیا کہ اگر تمہیں پانی دستیاب نہ ہو تو پاک مٹی سے تیمم کر لیا کرو، یہ آپ کے اس واقعہ کی وجہ سے سب لوگوں کو رخصت مل گئی۔ اللہ کی قسم، آپ انتہائی بابرکت ہیں۔ یہ باتیں سن کر سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: ابن عباس! چھوڑو ان باتوں کو، میں تو یہ پسند کرتی ہوں کہ میں بالکل بھولی بسری ہو جائوں۔
Musnad Ahmad, Hadith(11444)