۔ (۱۱۶۹۶)۔ قَالَ حَدَّثَنَا أَبُو النَّضْرِ ہَاشِمُ بْنُ الْقَاسِمِ، قَالَ: حَدَّثَنَا الْمُبَارَکُ یَعْنِی ابْنَ فَضَالَۃَ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو عِمْرَانَ الْجَوْنِیُّ، عَنْ رَبِیعَۃَ الْأَسْلَمِیِّ، قَالَ: کُنْتُ أَخْدُمُ رَسُولَ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فَقَالَ: ((یَا رَبِیعَۃُ أَلَا تَزَوَّجُ؟)) قَالَ: قُلْتُ: وَاللّٰہِ! یَا رَسُولَ اللّٰہِ، مَا أُرِیدُ أَنْ أَتَزَوَّجَ مَا عِنْدِی مَا یُقِیمُ الْمَرْأَۃَ، وَمَا أُحِبُّ أَنْ یَشْغَلَنِی عَنْکَ شَیْئٌ، فَأَعْرَضَ عَنِّی فَخَدَمْتُہُ مَا خَدَمْتُہُ، ثُمَّ قَال لِی الثَّانِیَۃَ: ((یَا رَبِیعَۃُ! أَلَا تَزَوَّجُ؟)) فَقُلْتُ: مَا أُرِیدُ أَنْ أَتَزَوَّجَ، مَا عِنْدِی مَا یُقِیمُ الْمَرْأَۃَ، وَمَا أُحِبُّ أَنْ یَشْغَلَنِیْ عَنْکَ شَیْئٌ فَأَعْرَضَ عَنِّی، ثُمَّ رَجَعْتُ إِلٰی نَفْسِی، فَقُلْتُ: وَاللّٰہِ! لَرَسُولُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بِمَا یُصْلِحُنِی فِی الدُّنْیَا وَالْآخِرَۃِ أَعْلَمُ مِنِّی، وَاللّٰہِ! لَئِنْ قَالَ: تَزَوَّجْ، لَأَقُولَنَّ: نَعَمْ، یَا رَسُولَ اللّٰہِ!، مُرْنِی بِمَا شِئْتَ، قَالَ فَقَالَ: ((یَا رَبِیعَۃُ أَلَا تَزَوَّجُ؟)) فَقُلْتُ: بَلٰی مُرْنِی بِمَا شِئْتَ، قَالَ: ((انْطَلِقْ إِلٰی آلِ فُلَانٍ
حَیٍّ مِنَ الْأَنْصَارِ، وَکَانَ فِیہِمْ تَرَاخٍ عَنِ النَّبِیِّ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فَقُلْ لَہُمْ: إِنَّ رَسُولَ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم أَرْسَلَنِیْ إِلَیْکُمْ یَأْمُرُکُمْ أَنْ تُزَوِّجُونِیْ فُلَانَۃَ لِامْرَأَۃٍ مِنْہُمْ۔)) فَذَہَبْتُ: فَقُلْتُ لَہُمْ: إِنَّ رَسُولَ اللّٰہِ أَرْسَلَنِی إِلَیْکُمْ یَأْمُرُکُمْ أَنْ تُزَوِّجُونِیْ فُلَانَۃَ فَقَالُوْا: مَرْحَبًا بِرَسُولِ اللّٰہِ وَبِرَسُولِ رَسُولِ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وَاللّٰہِ، لَا یَرْجِعُ رَسُولُ رَسُولِ اللّٰہِ ص صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم إِلَّا بِحَاجَتِہِ فَزَوَّجُونِیْ وَأَلْطَفُونِیْ وَمَا سَأَلُونِی الْبَیِّنَۃَ، فَرَجَعْتُ إِلٰی رَسُولِ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حَزِینًا، فَقَالَ لِی: ((مَا لَکَ یَا رَبِیعَۃُ؟)) فَقُلْتُ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ، أَتَیْتُ قَوْمًا کِرَامًا فَزَوَّجُونِیْ وَأَکْرَمُونِی وَأَلْطَفُونِی وَمَا سَأَلُونِی بَیِّنَۃً وَلَیْسَ عِنْدِی صَدَاقٌ، فَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ((یَا بُرَیْدَۃُ الْأَسْلَمِیُّ اجْمَعُوْا لَہُ وَزْنَ نَوَاۃٍ مِنْ ذَہَبٍ۔)) قَالَ: فَجَمَعُوْا لِی وَزْنَ نَوَاۃٍ مِنْ ذَہَبٍ، فَأَخَذْتُ مَا جَمَعُوْا لِی فَأَتَیْتُ بِہِ النَّبِیَّ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فَقَالَ: ((اذْہَبْ بِہٰذَا إِلَیْہِمْ فَقُلْ: ہٰذَا صَدَاقُہَا۔)) فَأَتَیْتُہُمْ فَقُلْتُ: ہَذَا صَدَاقُہَا فَرَضُوہُ وَقَبِلُوہُ وَقَالُوْا: کَثِیرٌ طَیِّبٌ، قَالَ: ثُمَّ رَجَعْتُ إِلَی النَّبِیِّ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حَزِینًا، فَقَالَ: ((یَا رَبِیعَۃُ! مَا لَکَ حَزِینٌ؟)) فَقُلْتُ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! مَا رَأَیْتُ قَوْمًا أَکْرَمَ مِنْہُمْ، رَضُوْا بِمَا آتَیْتُہُمْ وَأَحْسَنُوْا وَقَالُوْا: کَثِیرًا طَیِّبًا، وَلَیْسَ عِنْدِی مَا أُولِمُ، قَالَ: ((یَا بُرَیْدَۃُ اجْمَعُوْا لَہُ شَاۃً۔)) قَالَ: فَجَمَعُوْا لِی کَبْشًا عَظِیمًا سَمِینًا، فَقَالَ لِی رَسُولُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ((اذْہَبْ إِلٰی عَائِشَۃَ، فَقُلْ لَہَا: فَلْتَبْعَثْ بِالْمِکْتَلِ الَّذِی فِیہِ الطَّعَامُ۔)) قَالَ: فَأَتَیْتُہَا فَقُلْتُ لَہَا مَا أَمَرَنِی بِہِ رَسُولُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فَقَالَتْ: ہٰذَا الْمِکْتَلُ فِیہِ تِسْعُ آصُعِ شَعِیرٍ، لَا وَاللّٰہِ إِنْ أَصْبَحَ لَنَا طَعَامٌ غَیْرُہُ خُذْہُ، فَأَخَذْتُہُ فَأَتَیْتُ بِہِ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَََََ وَأَخْبَرْتُہُ مَا قَالَتْ عَائِشَۃُ، فَقَالَ: ((اذْہَبْ بِہٰذَا إِلَیْہِمْ فَقُلْ: لِیُصْبِحْ ہٰذَا عِنْدَکُمْ خُبْزًا۔)) فَذَہَبْتُ إِلَیْہِمْ وَذَہَبْتُ بِالْکَبْشِ وَمَعِی أُنَاسٌ مِنْ أَسْلَمَ، فَقَالَ: لِیُصْبِحْ ہٰذَا عِنْدَکُمْ خُبْزًا وَہٰذَا طَبِیخًا، فَقَالُوْا: أَمَّا الْخُبْزُ فَسَنَکْفِیکُمُوہُ وَأَمَّا الْکَبْشُ فَاکْفُونَا أَنْتُمْ، فَأَخَذْنَا الْکَبْشَ أَنَا وَأُنَاسٌ مِنْ أَسْلَمَ فَذَبَحْنَاہُ وَسَلَخْنَاہُ وَطَبَخْنَاہُ فَأَصْبَحَ عِنْدَنَا خُبْزٌ وَلَحْمٌ، فَأَوْلَمْتُ وَدَعَوْتُ رَسُولَ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ثُمَّ قَالَ: إِنَّ رَسُولَ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم أَعْطَانِی أَرْضًا وَأَعْطَانِی أَبُو بَکْرٍ أَرْضًا وَجَاء َتْ الدُّنْیَا فَاخْتَلَفْنَا فِی عِذْقِ نَخْلَۃٍ، فَقُلْتُ: أَنَا ہِیَ فِی حَدِّی، وَقَالَ أَبُو بَکْرٍ: ہِیَ فِی حَدِّی فَکَانَ بَیْنِی وَبَیْنَ أَبِی بَکْرٍ کَلَامٌ، فَقَالَ أَبُو بَکْرٍ کَلِمَۃً کَرِہَہَا وَنَدِمَ، فَقَالَ لِی: یَا رَبِیعَۃُ رُدَّ عَلَیَّ مِثْلَہَا حَتَّی تَکُونَ قِصَاصًا، قَالَ: قُلْتُ: لَا أَفْعَلُ، فَقَالَ أَبُو بَکْرٍ: لَتَقُولَنَّ أَوْ لَأَسْتَعْدِیَنَّ عَلَیْکَ رَسُولَ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فَقُلْتُ: مَا أَنَا بِفَاعِلٍ، قَالَ: وَرَفَضَ الْأَرْضَ وَانْطَلَقَ أَبُو بَکْرٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ إِلَی النَّبِیِّ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وَانْطَلَقْتُ أَتْلُوْہُ، فَجَائَ نَاسٌ مِنْ أَسْلَمَ فَقَالُوْا لِی: رَحِمَ اللّٰہُ أَبَا بَکْرٍ فِی أَیِّ شَیْئٍ یَسْتَعْدِی عَلَیْکَ رَسُولَ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وَہُوَ قَالَ لَکَ مَا قَالَ، فَقُلْتُ: أَتَدْرُونَ مَا ہٰذَا؟ ہٰذَا أَبُوْ بَکْرٍ الصِّدِّیقُ، ہٰذَا ثَانِیَ اثْنَیْنِ، وَہٰذَا ذُوْ شَیْبَۃِ الْمُسْلِمِینَ، إِیَّاکُمْ لَایَلْتَفِتُ فَیَرَاکُمْ تَنْصُرُونِی عَلَیْہِ، فَیَغْضَبَ فَیَأْتِیَ رَسُولَ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فَیَغْضَبَ لِغَضَبِہِ فَیَغْضَبَ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ لِغَضَبِہِمَا فَیُہْلِکَ رَبِیعَۃَ، قَالُوْا: مَا تَأْمُرُنَا؟ قَالَ: ارْجِعُوْا، قَالَ: فَانْطَلَقَ أَبُو بَکْرٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ إِلٰی رَسُولِ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فَتَبِعْتُہُ وَحْدِی حَتّٰی أَتَی النَّبِیَّ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فَحَدَّثَہُ الْحَدِیثَ، کَمَا کَانَ فَرَفَعَ إِلَیَّ رَأْسَہُ، فَقَالَ: ((یَا رَبِیعَۃُ! مَا لَکَ وَلِلصِّدِّیقِ؟)) قُلْتُ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! کَانَ کَذَا کَانَ کَذَا، قَالَ لِیْ کَلِمَۃً کَرِھَہَا، فَقَالَ لِیْ: قُلْ کَمَا قُلْتُ حَتّٰی یَکُوْنَ قِصَاصًا فَاَبَیْتُ، فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم : ((أَجَلْ فَلَا تَرُدَّ عَلَیْہِ وَلٰکِنْ، قُلْ: غَفَرَ اللّٰہُ لَکَ یَا أَبَا بَکْرٍ!۔)) فَقُلْتُ: غَفَرَ اللّٰہُ لَکَ یَا أَبَا بَکْرٍ، قَالَ الْحَسَنُ: فَوَلّٰی أَبُوْ بَکْرٍ رضی اللہ عنہ وَھُوَ یَبْکِیْ۔ (مسند احمد: ۱۶۶۹۳)
سیدنا ربیعہ اسلمی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت کیا کرتا تھا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھ سے فرمایا: ربیعہ! تم شادی کیوں نہیں کرتے؟ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! میں شادی نہیں کرنا چاہتا، میں بیوی کی ضروریات پوری کرنے کی استطاعت نہیں رکھتا، میں یہ بھی نہیں چاہتا کہ کوئی چیز مجھے آپ کی طرف سے مصروف (اور غافل) کر دے۔ آپ نے اس بارے میں مجھ سے مزید کچھ نہ کہا۔ پھر جب تک اللہ کو منظور تھا، میں آپ کی خدمت بجا لاتا رہا۔ کافی عرصہ بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک دفعہ پھر مجھ سے فرمایا: ربیعہ! تم شادی کیوں نہیں کرتے؟ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! میں شادی نہیں کرنا چاہتا، نہ ہی میں بیوی کی ضروریات پوری کر سکتا ہوں، میں یہ بھی پسند نہیں کرتا کہ کوئی چیز مجھے آپ کی طرف سے مشغول (یا غافل) کرے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھ سے مزید کچھ نہ کہا، میں نے اس کے بعد دل میں سوچاکہ اللہ کے رسول بہتر جانتے ہیں کہ کونسی چیز میرے لیے دنیا اور آخرت میں بہتر ہے۔ اللہ کی قسم! اگر اب اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے نکاح کے متعلق ارشاد فرمایا تو میں کہہ دوں گا کہ اللہ کے رسو ل ٹھیک ہے، آپ جو چاہیں مجھے ارشاد فرمائیں۔ آپ نے ایک دفعہ پھر مجھ سے فرمایا: ربیعہ! تم نکاح کیوں نہیں کر لیتے؟ میں نے عرض کیا:جی ٹھیک ہے، آپ جو چاہیں مجھے حکم فرمائیں، آپ نے ایک انصاری قبیلہ کا نام لے کر فرمایا کہ تم ان کے ہاں جائو، وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں کچھ وقفہ سے آیا کرتے تھے، تم جا کر ان سے کہو کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے تمہاری طرف بھیجا ہے، وہ تمہیں حکم دیتے ہیں کہ تم اپنے خاندان کی فلاں خاتون کا نکاح میرے ساتھ کر دو، چنانچہ میں نے ان کے ہاں جا کر ان سے کہا کہ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تمہاری طرف بھیجا ہے اور حکم دیا ہے کہ تم فلاں خاتون کا نکاح میرے ساتھ کردو۔ وہ کہنے لگے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ان کے نمائندے کو مرحبا (خوش آمدید)، اللہ کی قسم، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا بھیجا ہوا آدمی اپنی ضرورت پوری کرکے واپس جائے گا۔ چنانچہ انہوںنے میرا نکاح کر دیا اور میرے ساتھ بہت اچھا برتائو کیا۔ انہوں نے مجھ سے اس بات کا بھی ثبوت طلب نہ کیا کہ کیا واقعی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے بھیجا بھی ہے؟ میں غمگین سا ہو کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں واپس آیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دریافت فرمایا: ربیعہ! کیا بات ہے؟ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! میں بہت ہی با اخلاق لوگوں کے پاس گیا، انہوںنے میری خوب آئو بھگت کی اور میرے ساتھ حسن سلوک کیا، انہوںنے مجھ سے اس بات کی دلیل بھی نہیں مانگی کہ کیا واقعی آپ نے مجھے ان کی طرف بھیجا ہے؟ اب مسئلہ یہ ہے کہ میں مہر ادا کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہوں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اے بریدہ اسلمی! تم اس کے لیے پانچ درہم چاندی کی قیمت کے مساوی سونا جمع کرو۔ پس انہوںنے میرے لیےاتنا سونا جمع کر دیا، انہوںنے میری خاطر جو سونا جمع کیا تھا میں اسے لے کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں آگیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: تم یہ سونا ان یعنی اپنے سسرال کے ہاں لے جائو اور ان سے کہنا کہ یہ اس کا مہر ہے۔ چنانچہ میں ان لوگوں کے ہاں گیا اور میں نے ان سے کہا کہ یہ اس کا (یعنی میری بیوی کا) مہر ہے۔ وہ اس پر راضی ہوگئے اور انہوںنے اسی کو قبول کر لیا اور ساتھ ہی کہا کہ یہ بہت ہی پاکیزہ ہے۔ سیدنا ربیعہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میں ایک دفعہ پھر غمگین ہو کر آپ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دریافت فرمایا: ربیعہ! کیا بات ہے؟ غمگین کیوں ہو؟ میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! میں نے ان سے بڑھ کر شریف لوگ نہیں دیکھے، میں نے ان کو جو بھی دیا وہ اسی پر راضی ہوگئے اورانہوںنے خوشی کا اظہار کیا اور کہا کہ یہ بہت ہے اور پاکیزہ ہے۔اب میری تو حالت یہ ہے کہ میں ولیمہ کرنے کی بھی استطاعت نہیں رکھتا۔ آپ نے فرمایا: اے بریدہ! اس کے لیے ایک بکری کا انتظام کرو۔ چنانچہ انہوں نے میرے لیے اتنی رقم جمع کر دی کہ ایک بڑا اور موٹا تازہ مینڈھا خرید لیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھ سے فرمایا: تم ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے پاس جا کر ان سے کھانے والا بڑا برتن لے آئو۔ میں ان کی خدمت میں گیا اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے جو حکم فرمایا تھا، میں نے ان سے بیان کر دیا۔ انہوںنے کہا: وہ یہ برتن ہے، اس میں نو صاع (تقریباً۲۲کلو) جو ہیں۔ اللہ کی قسم! ہمارے ہاں اس کے علاوہ کھانے کی اور کوئی چیز نہیں ہے، تم یہ لے جائو۔ چنانچہ میں وہ لے گیااور لے جاکر وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں پیش کر دیا۔ اور ام المومنین نے جو کچھ کہا تھا وہ بھی بیان کر دیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: تم یہ خوراک ان (اپنے سسرال) کے ہاں لے جائو۔ اور کہو کہ یہ تمہارے ہاں روٹی کے کام آئیں گے۔ چنانچہ میں مینڈھا بھی ساتھ لے کر وہاں چلا گیا، میرے ساتھ میرے قبیلہ کے لوگ بھی تھے۔ میں نے ان سے کہا کہ یہ جو روٹی کے لیے اور یہ مینڈھا سالن پکانے کے لیے ہے، وہ کہنے لگے کہ روٹی ہم تیار کرتے ہیں اور مینڈھے کو تم تیار کرو، میں نے اور قبیلہ کے کچھ لوگوں نے مینڈھے کو ذبح کرکے اس کی کھال اتار کر گوشت تیار کرکے اسے پکایا، ہمارے پاس روٹی اور گوشت کا سالن تیار تھا۔ میں نے ولیمہ کیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بھی دعوت دی۔ اس سے آگے سیدنا ربیعہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کے بعد مجھے اور ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کو قطعۂ زمین عنایت فرمایا، ہمارے پاس دنیا کا مال آگیا، میرا اور ابوبکر رضی اللہ عنہ کا کھجور کے ایک درخت کے بارے میں جھگڑا ہو گیا۔ میں نے دعوی کیا کہ یہ میری حد میں ہے اور سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کہا کہ یہ میری حد میں ہے۔ میرے اور ابو بکر رضی اللہ عنہ کے درمیان تو تکار ہوگئی، غصے میں ابو بکر رضی اللہ عنہ ایک سخت کلمہ کہہ گئے، وہ خود انہیں بھی اچھا نہ لگا اور وہ خود اس پر نادم ہوئے، انہوںنے مجھ سے کہا: ربیعہ! تم بھی مجھے اسی قسم کے الفاظ کہہ لو، تاکہ بدلہ پورا ہو جائے۔ میں نے کہا کہ میں تو ایسے نہیں کروںگا، ابوبکر رضی اللہ عنہ بولے تمہیں ایسے الفاظ کہنے ہوں گے ورنہ میں اس بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے شکایت کر دوں گا۔ میںنے کہا: میں تو ایسا کام نہیں کر سکتا یعنی آپ کو ایسے الفاظ نہیں کہہ سکتا۔ ربیعہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ابو بکر رضی اللہ عنہ نے وہ متنازعہ جگہ چھوڑ دی اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف چل دیئے، میں بھی ان کے پیچھے پیچھے چل دیا۔ میرے قبیلے بنو اسلم کے بھی کچھ لوگ آگئے اور انہوںنے مجھ سے کہا کہ اللہ تعالیٰ ابوبکر رضی اللہ عنہ پر رحم کرے، وہ کس بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں تیری شکایت کریں گے؟ حالانکہ سخت اور ناگوار قسم کے الفاظ تو خود انہوںنے کہے ہیں۔ میں نے ان لوگوں سے کہا: کیا تم جانتے ہو وہ کون ہیں؟ وہ ابو بکرصدیق رضی اللہ عنہ ہیں،وہ ثانی اثنین ہیں۔ (یعنی جب اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہجرت کی تو غار میں اللہ کے رسول کے ساتھ دوسرے فرد وہی تھے۔) تمام مسلمانوں میں سے معزز و مکرم وہی ہیں۔ خبردار! خیال کرو کہ وہ کہیں مڑ کر تمہیں نہ دیکھ لیں کہ تم ان کے خلاف میری مدد کرنے آئے ہو۔ انہوںنے دیکھ لیا تو ناراض ہو جائیں گے۔ وہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس گئے تو ان کے غصہ کی بنیاد پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی ناراض ہو جائیں گے اور ان دونوں کی ناراضگی کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ بھی ناراض ہو جائے گا اور ربیعہ ہلاک ہو جائے گا۔ انھوں نے کہا: تو پھر تم ہمیں کیا حکم دیتے ہو؟ اس نے کہا:تم واپس چلے جائو۔ چنانچہ سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں چلے گئے، ان کے پیچھے پیچھے میں بھی اکیلا چلا گیا۔ انہوں نے جا کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ساری بات بتلا دی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے میری طرف سر اٹھا کر دریافت فرمایا: ربیعہ! تمہارے اور ابو بکر کے درمیان کیا بات ہوئی ہے؟ میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول!بات اس طرح ہوئی تھی۔ انہوںنے مجھے ایسے الفاظ کہہ دیئے جو خود انہیں بھی اچھے نہیں لگے، انہوں نے مجھ سے کہا کہ میں بھی ان کو اسی قسم کے الفاظ کہوں تاکہ قصاص ہو جائے۔ لیکن میں نے ایسے الفاظ کہنے سے انکار کر دیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: بہت اچھا، تم ایسے الفاظ نہ کہنا، بلکہ تم یوں کہو ابو بکر! اللہ آپ کو معاف کرے۔ تو میں نے کہا: اے ابو بکر! اللہ آپ کو معاف کرے۔ حسن نے بیان کیا کہ اس کے بعد ابوبکر رضی اللہ عنہ روتے ہوئے چلے گئے۔
Musnad Ahmad, Hadith(11696)